مہنگائی 0

حکومت اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو آئندہ بجٹ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جائے ایسی صورت میں مہنگائی کا عفریت مزید بے قابو ہو جائے گا۔

حکومت اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو آئندہ بجٹ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جائے ایسی صورت میں مہنگائی کا عفریت مزید بے قابو ہو جائے گا۔

یہ بات عوام کے لئے تشویش کا باعث ہے کہ آنے والے بجٹ میں عوام کو ریلیف کی زیادہ امید نہیں ہونی چایئے۔ اقتصادی ماہرین کی رائے کے مطابق آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے پیش نظرعوام بجٹ میں زیادہ ریلیف کی امید نہ رکھیں۔ اقتصادی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ نئے مالی سال میں بجلی،گیس مزید مہنگی اور ٹیکسز کی بھرمار ہوگی، متوسط طبقہ مزید پس جائے گا۔ سرکاری خرچ پورے کرنے کے لیے مہنگائی اور اضافی ٹیکسز کا بوجھ عوام کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ بجلی 5 سے 7 روپے فی یونٹ مزید مہنگی ہوگی۔مہنگائی سرکاری ہدف12 فیصد سے بہت بڑھ جائے گی۔ ماہر اقتصادی امور اشفاق تولہ کا کہنا تھا کہ جن شرائط کی بات ہورہی ہے مان کے خیال میں کافی مشکلات آنے والی ہیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)سے 8ارب ڈالر تک کے بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لیے بجٹ کی صورت میں عوام کے لیے کڑوی گولیوں کی تیاری آخری مرحلے میں پہنچ گئی۔ 18ہزار 900ارب روپے کا نیا مجوزہ وفاقی بجٹ 9800ارب روپے کے خسارے پر مبنی ہوگا۔ جو 329 روپے ایکسچینج ریٹ استعمال کر رہے ہیں اس کے اثرات بھی آنے ہیں۔ نئے بجٹ میں ایف بی آر کا ممکنہ سالانہ ٹیکس ہدف 13 ہزار ارب روپے ہوگا جسے پورا کرنے کیلئے اضافی ٹیکس لگانا پڑیں گے۔ نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے مینوفیکچرنگ سے ری ٹیلرز تک پوری سپلائی چین پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس لگانے، ٹھیکیداروں، پروفیشنلز اور کھلاڑیوں کی آمدن پر بھی ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے۔1080 ارب روپے کی پیٹرولیم لیوی سمیت نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 4800 ارب روپے جمع کرنے کا پلان اس کے علاوہ ہے۔ نئے بجٹ میں درآمدی خوراک، بچوں کے دودھ اور اسٹیشنری سمیت سینکڑوں اشیا پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی تجریز ہے۔ پرانی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے اور لاکھوں ری ٹیلرز سمیت متعدد شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا پلان ہے۔ چھوٹے سرکاری ملازمین کوتنخواہوں میں اضافے اورغریب طبقے کو تو بی آئی ایس پی سے کچھ ریلیف مل جائے گا تاہم مڈل کلاس کے لیے مشکلات مزید بڑھنے والی ہیں۔دریں اثنا ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے پیش نظر بجٹ میں ریلیف کا امکان بہت کم ہونے کی توقع ہے، جو آپ کا مڈل انکم اور ہائی انکم اینڈ گروپ ہے ان کے اوپر پھر بھی ایڈیشنل ٹیکسز اور ایڈیشنل انرجی کے جو ٹیرف ہیں ان کا سامنا ہوگا۔ نئے بجٹ میں ری ٹیلرز، زرعی آلات، بیجوں، کھاد، ٹریکٹرز اور دیگر آلات پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی تجویز ہے۔ 60 لاکھ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا ہدف ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بیل آؤٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف کو رام کرنا ہے۔ ہماری رائے میں یہ صورتحال جس کی تصویر کشی ماہرین اقتصادیات کر رہے ہیں عوام کے لئے بلاشبہ تشویش اور پریشانی کا باعث ہے۔ عوام حکومت سے آئندہ بجٹ میں ریلیف اور سہولتوں کی امید یں لگائے بیٹھی ہے جبکہ حکومت آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لئے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے سے نہ صرف قاصر نظر آتی ہے بلکہ بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے لئے اقدامات کرتے نظر آرہی ہے۔ ہماری رائے میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کا ایک اور نیا سیلاب عوام کو مشکلات کا شکار کر دے گا اور ایسی صورت میں ملک کی معیشت بہتری کی بجائے مزید ابتری کی جانب جائے گی۔ ہماری رائے میں عالمی مالیاتی ادارہ صرف اور صرف اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے پاکستان اور پاکستانی عوام کی بہتری اور معاشی ترقی سے اس ادارے کاکوئی لینا دینا نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح پھنس چکا ہے اور جس قدر جلد ممکن ہو پاکستان کو آئی ایم ایف کے چکرسے نکل جانا چایئے اسی میں پاکستان کی بہتری ہے۔بلاشبہ ملک کو چلانے کے لئے حکومت کو مالی معاونت اور فنڈز درکار ہیں اور آئی ایم سے قرض کا حصول حکومت کی مجبوری ہے لیکن حکومت اگر ملک کو حقیقی ترقی کی خواہ ہے تو جس قدر جلد ممکن ہو مزید اس پھندے میں جانے سے اس ادارے کے چنگل سے نکلنے کے لئے اقدامات اٹھائے تو اسی میں پاکستان اور پاکستانی عوام کی بہتری ہے۔ قرض دے کر عالمی مالیاتی ادارہ اپنا قرض معاف تو نہیں کرتا بلکہ اس پر سود در سود وصولی کرتا ہے لیکن عالمی مالیاتی ادارہ کی ہمارے اندورنی مالیاتی نظام پر اثر انداز ہوکر عوام پر قرضوں کے بوجھ سے ہٹ کر پوری معیشت کو یرغمال بنانا اور عوام پر مختلف نوعیت کے نئے ٹیکسز لاگوکرنا جو مہنگائی کی شدت میں اضافہ کا باعث بنے کسی طور بھی پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ جہاں تک ٹیکس نیٹ میں اضافہ کا تعلق ہے حکومت ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف پورا کرنے کے لئے مناسب اقدامات ضرور اٹھاے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیلئے نئے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ یقینی بنائے یہ معیشت میں بہتری کے لئے انتہائی ضروری ہے بلکہ ضروری ہوگا کہ ٹیکس چوروں کے گرد گہرا تنگ کیا جائے اور اسی طرح ایف بی آر اور محکمہ انکم ٹیکس موجود کالی بھیڑوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے جن کی ملی بھگت سے ٹیکس چوری ممکن ہوتی ہے۔عجیب صورتحال ہے کہ ایک طرف حکومت مہنگائی میں کمی کا دعوی کرتے نہیں تھکتی تو دوسری طرف مہنگائی کا ایک نیا سیلاب راستہ بنا رہا ہو تو ایسے میں ملک کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔ بلاشبہ چند اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن مہنگائی کا تسلسل ہنوز جاری ہے۔ حکومت کو اس حقیقت کا ادارک ضرور ہوگا کہ بجلی،گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بلاشبہ مہنگائی کو دعوت دیتا ہے،یوٹیلیٹی بلات میں اضافہ سے جہاں ڈایریکٹ عوام پر بوجھ پڑتا ہے وہاں مہنگائی کا ایک نہ رکنے والا سیلاب بھی اس اضافے کا منتظرہوتا ہے۔ ہماری رائے میں حکومت اآئی ایم ایف کی بجٹ تجاویز کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے حوالے سے کسی صورت پزیرائی نہ دے اور ان کی قیمتوں میں اضافہ کی بجائے جس قدر ممکن ہوسکے ان میں کمی یقینی بنائی جائے تاکہ عوام کو حکومت سے توقعات کے مطابق آمدہ بجٹ میں کچھ ریلیف تو مل سکے۔ حکومت آئندہ بجٹ میں اگر یوٹیلیٹی بلوں کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے تو یہ کسی صورت ایک اچھا قدم نہیں ہوگااور جہاں تک پیٹرولیم مصنوعات کا تعلق ہے عالمی منڈی میں ان کی قیمتوں میں مزید کمی دیکھنے میں آرہی ہے لہذا حکومت عید الااضحی کے موقع پر عوام کو تحفہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرئے تو جہاں کو عوام کو ریلیف ملے گا وہاں مہنگائی میں کمی کے بھی امکانات ہونگے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت ملک کے مفاد اور عوام کی مشکلات کا ادارک کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی ایسی کسی شرط اور ہدایت پر عمل نہیں کرئے گی جو عوام کی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہو۔ مفاد عامہ کے پیش نظر حکومت آنے والے بجٹ میں عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے ریلیف کے لئے اقدامات یقینی بنائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں