خاور عباس شاہ 0

سانحہ جڑانولہ۔۔ملکی سالمیت کے خلاف سازش

سانحہ جڑانولہ۔۔ملکی سالمیت کے خلاف سازش

فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں دل دہلا دینے والا واقع میں رونما ہوا جس پر پاکستان میں بسنے والے جناب رسول خداﷺ کے ماننے والوں کے دل بہت اداس ہیں مسیح باپ بیٹے پر کسی نے مبینہ الزام لگا دیا کہ انہوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے اس کے فوری بعد مسجدوں سے اعلانات شروع ہو گئے جس کے بعد ہجوم نے مختلف انیس گرجا گھر وں، عبادت گاہوں اور مسیح برادری کے چھیاسی گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی کسی نے سامان اٹھا کر باہر پھینکا اور کوئی لوٹ مار کرتے رہے کے بعد آگ لگا دی گئی اور چند منٹوں کے اندر مکان، موٹر سائکلیں اور گھروں کا سامان جل کر خاکستر ہو گیا اس دوران پولیس اور انتظامیہ بس تماشہ دیکھتی رہی پورے علاقے کی مسیحی آبادی کو جان پچانے کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ کر رات کھلے آسمان تلے کھیتوں وغیرہ میں گزارنا پڑی۔ سانحہ جڑوانوالہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے بلکہ ان تمام واقعات کا تسلسل ہے جو ماضی قریب یا ماضی قریب میں ہوتے رہے ہیں

سیالکوٹ میں سیکڑوں افراد نے ایک فیکٹری میں سری لنکن مینجر پر مذہبی پوسٹر اتارنے کا الزام لگا کر اس پر ڈنڈے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار کر اسے بلڈنگ سے نیچے پھینکا گیا اور اس کی لاش کی بے حرمتی کر کے اسے جلا یا دیا گیا اسی طرح کئی ایسے واقعات ہیں جس پر ہم سب نے احتجاج کیا بیانات دئیے پھر اس کا کوئی حل نہیں نکالا اور آج دل دہلا دینے والا واقع جڑوانولہ ہو گیا اس قدر شدت سے ہوا کہ کہ جس میں لوگوں کی دنیا اجڑ گئی اور آج پھر ہم سب سرپا احتجاج ہیں آئین ِ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی اساس قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947والی وہ تقریرہے جس کی بنیادپرآج بھی پاکستان میں ہر سال 11 اگست کا دن اقلیتوں کی تعلیم، سائنس، عدلیہ، سول سروسز اور دفاع سمیت دیگر شعبوں میں خدمات کے اعتراف میں ”اقلیتوں کے دن ”کے طور پر مناتا ہے اس کا آغاز 2009 میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا تھا۔محمد علی جناح نے فرمایا”آپ سب آزاد ہیں۔آپ آزاد ہیں،اپنے مندروں میں جانے کیلئے یا کسی عبادت گاہ میں جانے کیلئے۔

پاکستان کی ریاست میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یاعقیدے سے ہو، اس کاہمارے اس بنیادی دستورسے کوئی تعلق نہیں کہ ہم سب شہری ہیں،برابرکے شہری ہیں اس ریاست کے، ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔”یہ تاریخ انسانی کے وہ شاندارالفاظ ہیں جنھوں نے آئین پاکستان میں آرٹیکل بیس سے لے کر آرٹیکل ستائیس تک اقلیتوں کو وہ تحفظ فراہم کیاقائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر میں مستقبل کی نئی ریاست کی سمت طے کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریاست کا کسی کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ہر کسی کو مذہبی آزادی ہوگی اور ریاست نہ تو کسی مذہب کو فروغ دے گی اور نہ ہی کسی کو دبائے گی۔ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی اعتبار سے نہیں بلکہ سیاسی اور قومیت کے اعتبار سے۔قائد اعظم پاکستان کے قیام کے بعد محض 13 ماہ زندہ رہے۔ ان کے دور میں وزیر قانون ہندو جبکہ وزیر خارجہ کا تعلق بھی اقلیتی فرقے سے تھا۔ ان کی زندگی میں تو پاکستان تمام گروہوں کو شامل کرکے چلنے کی پالیسی پر گامزن رہا لیکن قائداعظم کی وفات کے چھ ماہ بعد پاکستان میں قرارداد مقاصد منظور کی گئی۔قائد اعظم کا اقلیتوں کے متعلق وژن بڑا واضح تھا،انہوں نے قومی پرچم میں سبز رنگ کے ساتھ سفید رنگ شامل کرایا جو اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

حکومت پاکستان نے سال 2009میں ایک ڈائریکٹو ایشو کیا تھا جس کے تحت پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کیلئے پانچ فیصدکوٹہ مخصوص کیاگیاتھا،اس ڈائریکٹو پر پنجاب، سندھ اوربلوچستان نے فوری عمل کیا جبکہ کے پی کے نے پہلے اسے بتدریج بڑھاتے ہوئے اس شرح کو تین فیصد تک جاپہنچایا۔حکومت پاکستان محض کاغذی کارروائی تک محدود نہیں رہی بلکہ اقلیتوں کے متعلق مختلف اوقات میں اعدادوشماربھی اکٹھے کرتی رہتی ہے۔

پاکستان کی ایوان بالا میں چار م ایوان زیریں میں دس، صوبائی اسمبلیوں میں چوبیس اقلیتیں نمائندگی کرتی ہیں‘پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں کی ہے۔ مسیحی آبادی کے اعتبار سے دوسری بڑی اقلیت ہیں جبکہ ان کے علاوہ سکھ، پارسی، بودھ اورکیلاشی نمایاں ہیں۔مسیحی پاکستان کی دوسری بڑی اقلیت ہیں جو پاکستان کے طول و عرض میں آباد ہیں لیکن پنجاب میں ان کی بڑی تعداد بستی ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ مشاہدہ سامنے آیا ہے کہ پنجاب میں مسیحی آبادی کو توہین مذہب کے الزامات پر نشانہ بنایا گیا ہے۔

مسیح برادری سے اظہار یکجہتی کے لئے نئے آنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ جڑانوالہ کا دورہ کیا اور مسیحی برادری پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ بطور مسلمان، پاکستانی اور انسان انھیں ان واقعات سے ’دلی صدمہ پہنچا اور شدید دکھ ہوا‘ ہے۔متاثرین سے ملاقاتوں کے بعد انھوں نے صحافیوں کے ساتھ اپنا ایک تحریری بیان شیئر کیا۔جو بہت اہم تحریری بیانات ہیں اس میں لکھا ہے کہ ’عیسیٰ نگر میں گمراہوں کے ایک بے ہنگم ہجوم نے متعدد گرجا گھر اور مسیحی آبادی کے مکانات جلائے اور برباد کیے۔‘اس نوٹ میں اسلام کی تاریخ کے مختلف واقعات کی روشنی میں بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو مسیحی برادری سے احترام سے پیش آنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ان حملوں سے بانی پاکستان محمد علی جناح کی غیر مسلموں کو دی گئی ضمانتوں کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ ’تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اور 295 اے کے تحت مذہبی مقامات اور علامات کو نقصان پہنچانا جرم ہے اور کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قید اور جرمانے کی سزائیں ہیں۔‘نوٹ میں ان کا کہنا ہے کہ ’ہر مسلمان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ دو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں، ان کی جانوں، اموال، جائیداد، عزت اور عبادت گاہوں کی حفاظت کریں اور ان پر حملہ کرنے والوں کو روکیں اور ان کو پہنچنے والے نقصان کی ہر ممکن تلافی کریں۔‘جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’ناسمجھی کی انتہا یہ ہے کہ ’اسلام‘ جس کے مفہوم میں امن ہے اور جو اپنے پیروکاروں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ لوگوں سے ملتے وقت ان کے لیے سلامتی کی دعا کیا کریں، اس مذہب کے چند ماننے والوں اور خود کو مسلمان کہنے والوں نے اپنے مذہب کی تعلیمات پامال کرتے ہوئے اتنی وحشت اور ظلم کا مظاہرہ کیا۔‘اس موقع پر آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر نے اپنے بیان میں کہا کہ جڑانوالہ کا واقعہ انتہائی افسوسناک اور ناقابل برداشت ہے، نوجوان سچ، آدھا سچ، جھوٹ اور غلط معلومات کا فرق سمجھیں۔

انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت اور انتہائی رویے کے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں، پاکستان کے تمام شہری بلا تفریق مذہب، جنس، ذات یا عقیدہ ایک دوسرے کیلئے برابر ہیں، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔جڑوانولہ واقع کوئی معمولی واقع نہیں ہے انیس عبادت گاہوں کا جل جانا کوئی مذاق نہیں یہ ایک انتہاء پسندی کا نتیجہ ہے پہلے تو قرآن پاک کی مبینہ توہین کو جواز کے طور پر پیش کیا گیامگر اس حوالے سے جو ”شواہد“ پیش کئے گئے ہیں وہ واضح طور پر سازشی عناصر کی جانب سے ملک میں نہ صرف انارکی اور مذہبی فساد پھیلانے کی ایک سوچی سمجھی منظم سازش کی جانب اشارہ ہے بلکہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کا عالمی منصوبہ بھی ہے جس میں شانل تمام کرداروں کو بے نقاب کرنا بے حد ضروری ہے اگر ایک آدمی نے گناہ کیا تو اس باقی لوگوں کا کیا قصور؟پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں ریاست کو اس انہتا پسندی اور انسانی حقوق کی پالیوں پر سخت رد عمل دنیا ہو گا اس میں پاکستان اور ریاست پاکستان کی عزت کا سوال ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں