راجہ عمر فاروق 0

مخصوص نشستیں

تحریر: راجہ عمر فاروق

مخصوص نشستیں

مخصوص نشستوں کی آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی آخر یہ نشستیں کس مقصد کے لیے دی جاتی ہیں، ایوان میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالہ سے قانون سازی آج تقریباً بیس سال قبل اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے کی تھی، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین۔ کی مخصوص نشستیں کوٹے کے حساب سے دی جاتی ہیں، جبکہ جنرل نشستوں کی تعداد 266 کے قریب ہیں جبکہ خواتین کی 60 اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستوں سے یہ کل نشستیں 336 کے قریب بن جاتی ہیں، اسی تناسب کے ساتھ صوبہ پنجاب میں مخصوص نشستوں کی تعداد 66، سندھ اسمبلی میں 29، کے پی کے اسمبلی میں 22 اور بلوچستان اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی تعداد 11 ہے یہ وہ نشتیں جو بونس کے طور پر ہر سیاسی جماعت کو الاٹ کی جاتی ہیں، میں نے بونس کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہ سیٹیں جیتنے کے بعد تحفتاً پیش کی جاتی حالانکہ میری ناقص رائے میں یہ نشستیں قومی خزانے پر بوجھ کے مترادف ہیں کیونکہ اکثر و بیشتر یہ نشستیں سیاسی جماعتیں اپنی ان خواتین کو الاٹ کرتی ہیں جو کی کارکردگی محض اتنی ہوتی ہے کہ وہ ہر جگہ اپنی قیادت کا ہر اچھے برے کام کا دفاع کرتی ہیں ان نشستوں سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے نقصان بھی ہوتا ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو قانون میں یہ خاص نشستیں خواتین کے لیے مختص ہیں میں معزز خواتین سے معزرت کے ساتھ یہ تحریر کرنا چاہتا ہوں کہ خواتین کی قابلیت محض اتنی ہوتی ہے وہ میڈیا میں اپنے قائدین کی تعریف اور مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، میں اس کی مثال آپ کو یہ دے دیتا ہوں کہ حالیہ دنوں سوچائی اسمبلی پنجاب میں ایسی خواتین کو نوازا گیا ہے جو مریم نواز کے بہت قریب تھیں یہ خواتین مخصوص نشستوں سے جیت کر اسمبلی میں پہنچی ہیں اور سونے پر سہاگا یہ ہے کہ ان خواتین کو صوبائی کابینہ میں وزارتوں سے بھی نواز دیا گیا ہے، حالانکہ ان خواتین کی سیاسی قابلیت صرف اپنی لیڈر کے ارد گرد نظر آنا ہے، اسی طرح ماضی میں عمران خان تحریک انصاف شیریں مزاری اور آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی بھی شیری رحمٰن ہیں جو کسی نہ کسی عہد میں عہدے میں ضرور رہی ہیں، اگر دیکھا جائے تو یہ باعث مجبوری سیاسی جماعتیں یہ نشستیں خواتین میں الاٹ کرتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کو اپنے کلچر کو تھوڑا تبدیل کرنا چاہیے ابھی حالیہ الیکشن میں تحریک انصاف جس نے جنرل الیکشن میں خواتین کو سب سے ٹکٹ جاری کیے وہ بھی بطور مجبوری اگر یہ طرز سیاست دیگر جماعتیں اپنائے تو خواتین کو ایوان میں متناسب نمائندگی ان خیراتی نشستیں کے بدلے میں دی جا سکتی تھی۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے ان مخصوص نشستوں کی وجہ سے جو بوجھ قومی خزانے پر پڑتا ہے وہ اربوں روپے کے حساب سے جبکہ ان خواتین کی سیاسی قابلیت نہ ہونے کے برابر ہے،
ان 188 مخصوص نشستوں کا کوئی جواز نہیں بنتا. یہ سابق صدرپرویز مشرف نے اسمبلی میں رونق میلہ لگانے کے لیے أس وقت کی ربڑ سٹیمپ اسمبلی سے منظور کروائی تھیں ۔یہ سالانہ اربوں روپے کا بغیر کچھ کام کیۓ غریب عوام کو ٹیکہ لگا رہی ہیں. اور یہ ممبر زیادہ تر امیر زادوں کے رشتے دار یا چمچے کرچیاں ہوتے ہیں۔ لہذا یہ 188 سیٹس فالفور ختم کر کے ان کی جگہ 94 سیٹس پروفیشنل کے لیے منظور کی جائیں جن میں %50 فنانس اور اکنامکس ایکسپرٹ ( %25 چارٹرڈ منیجمنٹ اکاوٹنٹس اور %25 پی ایچ ڈی اکنامکس) کے لیے اور %50 باقی شعبہ جاتی ماہرین کے لیے ہوں
50% کابینہ ان ماہرین پر مشتمل ہو اور باقی %50 الیکٹڈ ممبرز سے لیے جائیں. یاد رہے الیکٹڈ فنانس ایکسپرٹ نہ ہونے کی وجہ سے پچھلی حکومتیں 10 بار منسٹر فنانس تبدیل کرتی آئی ہیں جو غیر یقینی معاشی صورت حال کی وجہ بنتا رہا. اگر ہم ان مخصوص نشستوں کو اسی حساب سے قابل، ذہین و فطین لوگوں کو اسمبلی میں ایڈجسٹ کریں تو اس سے قومی خزانے کو بجائے بوجھ کے ان لوگوں کی خدمات سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے، بالفرض ہم پڑھے لکھے اور ایسے لوگوں کو اس فیلڈ میں جگہ دیں تو وہ اسمبلی میں بیٹھ کر ملک کی ترقی اور کامیابی کا بہتر روڈمیپ دے سکتے ہیں۔
جیسا کہ ہم ڈاکٹرز کو اسمبلی میں جگہ دیتے ہیں تو وہ صحت کے حوالہ سے حکومت کو ایسے مشورے اور رائے دے سکتے ہیں جس سے ملک کے اندر جدید نظام صحت کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں کے بہتر انفراسٹرکچر اور ڈویلپمنٹ ہو سکتی ہیں، اسی طرح ہم اگر وہ معیشت دان اسمبلی میں ان جگہوں پر ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ تو وہ معاشی بہتری اور ملک میں جاری مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ صنعتوں، انڈسٹری اور روزگار کے بہتر مواقع پیدا کر سکتے ہیں، اسی حوالہ سے اگر مزید بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا جائے تو ہم خزانہ کے ماہرین اقتصادیات کو اسمبلی میں اسحاق ڈار کے مقابلے میں کھڑا کریں تو وہ خزانہ کے امور کو بہتر انجام دے سرانجام دے سکتے ہیں لیکن مقام افسوس ہے کہ ہم اپنی چاپلوسیوں اور خوشامدیوں کو ان جگہوں پر دیکھنا پسند کرتے ہیں جو ہماری خوشنودی کریں اور ہماری ہر اچھی بری بات پر واہ واہ کے نعرے لگائیں چاہے انکی قابلیت صفر برابر صفر ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے یہ بحث حد ضروری ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو بہتر کرنے اور ملکی کو بہتر بنانے کے جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کریں کیونکہ اس وقت دنیا اپنے قابل لوگوں سے مستفید ہو رہی ہے اور ہم وہ گھسے پیٹے ہوئے بوسیدہ واہ واہ کرنے والوں کو ایسی جگہ ہر بٹھا دیتے ہیں جن کی اس جگہ ہر قطعاً ضرورت نہیں ہوتی یہ لوگ ملک کی بہتری کرنے کی بجائے اپنے قائدین کی واہ واہ کرنے میں پانچ سال اسمبلی میں بیٹھ کر ملک کے قومی خزانے کا سبب بن رہے ہیں جس سے ملک کی سمت بہتر نہیں ہو رہی اور وہ پرانے چہرے نئے نعروں کو اپنا کر مخصوص نشستوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔ میں یہ قطعاً نہیں کہہ رہا کہ خواتین کو ان جگہوں پر نہیں ہونا چاہیے بالکل ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو خواتین کو فیلڈ میں سیاست کرنے کے ہنر سے آشناء کرنا ہوگا تاکہ خواتین مردوں کے ہم پلہ ہو کر سامنے آئیں جیسے کہ ہر فیلڈ میں وہ مردوں کا مقابلہ کر رہی ہیں ٹھیک اسی طرح وہ سیاست میں بھی مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔ تاکہ وہ معاشرے میں حقیقی سیاستدان بن سکیں جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی سیاست میں مردوں کا مقابلہ کیا اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں، اور اب مریم نواز ہیں جنہوں نے سخت حالات میں اپنی سیاست کی اور آج پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزیراعلیٰ ہیں۔ ہمیں اب سیاست میں خواتین کو بھی ایسے ہی سامنے لانا ہوگا تاکہ ہر عورت بینظیر بھٹو شہید اور مریم نواز بن سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں