شوکت علی ملک 0

23 مارچ یوم پاکستان اور کشمیر

تحریر:شوکت علی ملک

23 مارچ یوم پاکستان اور کشمیر

ملک بھر کی طرح ضلع کوٹلی میں 84 واں یوم پاکستان ملی جوش و جذبہ کیساتھ منایاجارہا ہے۔ صبح کا آغاز مساجد میں ملکی سلامتی، ترقی، خوشحالی اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی جلد آزادی کیلئے دعائیں کیساتھ کیا جائے گا۔ 23 مارچ یوم پاکستان کے حوالے سے پرچم کشائی کی تقریب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز کوٹلی میں منعقد کی جائے گی جس کے مہمان خصوصی وزیر شہری دفاع و ڈیزاسٹر منیجمنٹ چوہدری عامر یاسین ہوں گے۔۔ ضلع بھر کے تعلیمی اداروں میں یوم پاکستان کے حوالے سے تقریری مقابلہ جات و بحث و مباحث کرائے جائیں گے۔ تمام سرکاری و دیگر اہم عمارات پر پاکستان و آزاد کشمیرکے پرچم لہرائے جائیں گے۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر حق نواز نے کہا کہ 23 مارچ یوم پاکستان کو بھرپور ملی جذبے کے ساتھ منانے کیلئے تمام محکمہ جات کے سربراہان اپنے عملے کے ہمراہ حاضری کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ 23 مارچ 1940 کا دن تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن یعنی 23مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کی گئی۔ قرارداد پاکستان کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جداگانہ وطن کے حصول کیلئے تحریک شروع کی جو 7 سال بعد اپنامطالبہ منظور کروانے میں کامیاب ہوئی۔ زندہ قومیں اپنے قومی نوعیت کے دنوں کو بھرپور جذبے سے مناتی ہیں۔
انگریز سامراج کے تسلط سے آزادی کے لیے مسلمانانِ ہند کی طویل جدوجہد اور 82 سال قبل23مارچ کو ایک اہم موڑ پر ایک خودمختار اسلامی مملکت کے مطالبے نے گویا برصغیر کی تاریخ ہی بدل ڈالی اور یہی مطالبہ بالآخر پاکستان کی بنیاد بنا۔ اس روز قائداعظمؒ کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے منٹوپارک میں قراردادِ لاہور پیش کی جسے قرار دادِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے اور اسی دن کی یاد میں ملک بھر میں ہر سال ”یومِ پاکستان“ انتہائی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ اس قرارداد نے انگریز اور ہندو حکمرانوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ مسلمان ایک جداگانہ حیثیت رکھتیہیں، جس کے باعث ایک ہی وطن میں ہندوو?ں کی بالادستی مسلمانوں کے مفاد میں نہیں۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوو?ں کے راستے اس وقت جدا ہوئے جب مسلمانوں کی جانب سے نہرو رپورٹ میں تجویز کردہ 3ترامیم کو کانگریس کی جانب سے مسترد کرتے ہوئے اسے من و عن منظور کرلیا گیا۔ 1929ء میں نہرو رپورٹ کے ردِعمل میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد کی گئی، جہاں قائداعظمؒ نے 14نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوؤں نے رَد کردیا۔
قراردادِ لاہور سے قبل جداگانہ قوم کا تصور، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے 30دسمبر1930ء کو الٰہ آباد میں منعقدہ جلسہ میں پیش کیا۔ علامہ اقبالؒ کی خواہش مسلمانوں کے لیے روشنی کی ایسی کرن ثابت ہوئی، جس نے آئندہ برسوں میں ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست کے قیام کی جدوجہد کے لیے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔
پھر اپریل 1934ء میں قائداعظمؒ کی وطن واپسی کے بعد مسلمان لیڈروں نیباہمی اختلافات ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک خود مختار ریاست کی تکمیل کابیڑہ اٹھالیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے1936ء تا 1937ء میں عوام کو اقتدار سونپنے کے پہلے مرحلے میں 11صوبوں میں الیکشن منعقد کروائے گئے، جس میں مسلم لیگ کو بنگال کے علاوہ کسی بھی صوبے میں نمایاں کامیابی حاصل نہ ہوسکی جبکہ کانگریس برصغیر کی نمایاں جماعت بن کر اُبھری۔
1938ء میں کراچی کے عیدگاہ میدان میں پہلی بار سندھ مسلم لیگ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں برصغیر کی دونوں نمایاں جماعتوں سے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ عبد المجید شیخ سندھی کی پیش کی گئی قرارداد میں واضح کیاگیا کہ ”ہندوستان میں ایک کے بجائے دو قومیں آباد ہیں، مسلمان ہندوو?ں سے علیحدہ قوم ہیں۔
لہٰذا مسلم لیگ کو ایسی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے جوہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی و خود مختاری دلوا سکے“۔ اس حکمت عملی کی تیاری کے لیے 1939ء میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کی جانب سے دو کمیٹیاں مجلس امورخارجہ اورمجلس آئینی تشکیل دی گئیں، جس کے بعد اگلے سال اس خواب کی پہلی صورت قراردادِ لاہور کی شکل میں سامنے آئی۔
1940ء میں قرارداد پیش کرنے کیلئے لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جنرل باڈی کونسل کا تین روزہ سالانہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ نواب ممدوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر افتتاحی خطاب کیا، جس کے بعد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنیتاریخی خطاب میں ہندوستان کوتقسیم کرکے”مسلم انڈیا“ کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔
مسلمانانِ ہند کی ایک بڑی تعداد نئے ملک کیحصول کی خاطر جمع ہوئی، وہاں ان کیلئے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ پہلی بار قائد اعظمؒ کو دیکھنے اور سننے آئے تھے۔ عظیم قائد کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب لوگوں کا جم غفیر قائد اعظمؒ کی انگریزی میں کی گئی تقریر کو سمجھنے سے قاصر تھا لیکن ہر کوئی ان کے لفظو ں کی تاثیراور معنوں کو دل کی شرح سے سمجھ رہا تھا اور ایک ایک لفظ اپنی سماعتوں میں اُتار رہا تھا۔
اس روز پہلی مرتبہ ایک الگ اور خودمختار ریاست کی تحریک آئینی اور قانونی خدوخال میں پیش کی گئی۔ اس میں ان علاقوں، صوبوں اورخطوں کی نشاندہی کی گئی جو مجوزہ پاکستان میں شامل کیے جانے تھے۔ دوسرے روز23مارچ کو سہ پہر 3بجے متحدہ بنگال کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق (شیرِ بنگال) نے قراردادِ ِپاکستان پیش کی جبکہ بیگم محمد علی جوہر نے تقریر میں قرارداد کو پہلی بارقراردادِ لاہور کہہ کر پکارا (آگے چل کر یہ قراردادِ پاکستان کہلائی)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں