راجہ سعود خان 0

غزہ اور مسئلہ کشمیر اتقابلی جا ئزہ

تحریر: راجہ سعود خان

غزہ اور مسئلہ کشمیر اتقابلی جا ئزہ

ان الفاظ سے ماورا ہو کر دونوں ریاستوں کے تقابلی جائزے کی کوئی صورت مشکل ہی پختیٰ ہو۔ حالیہ دنوں میں غزہ پر ٹوٹی قیامت کے الفاظ کی لغت میں کوئی مناسب لفظ موجود نہیں جو اس کی ترجمانی کر سکے۔ بہرکیف کاری کی ہر ممکن کوشش ہو گی کہ وہ جذبات سے آری ہو کر اس عنوان کے ساتھ انصاف کرے۔
روروشن کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ فلسطین اور کشمیر دونوں ہی ریاستیں غاصب ریاستوں،اسرائیل اور بھارت کے ناجائز تسلط میں ہیں۔یہ دونوں ہی ریاستیں ہمیشہ سے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بین الاقوامی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھتی آئی ہیں۔ بات ہو آرٹیکل370اور35A کو معطل کر کے کشمیر کی آزادانہ حیثیت ختم کرنے کی ہو یا بین الاقوامی انسانی قوانین کے آرٹیکل 3کے خلاف جاتے ہوئے غزہ کے بے گناہ شہیدوں کو حماس کی کارروائیوں کے خلاف اجتماعی سزا دینے کی، بھارت اور اسرائیل نے ثابت کیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین بالخصوص اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اس نظر میں اہمیت نہیں ہے یا یہ اہمیت بس تب تک محدود ہے جب تک کہ ان غاصب ریاستوں کے ذاتی مفادات کا تحفظ کرتی رہیں۔ اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش(António Guterres) کے مطابق یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ حماس کی کارروائیاں کسی خلا میں نہیں بلکہ فلسطینی عوام کے چھپن (56) سالوں سے جاری قبضہ وظلم اور بربریت کا ردعمل ہے۔ان الفاظ کی گہرائی میں فکر کریں وہ بین الاقوامی لیول پر جا کر انسانیت سوز اس سفاکیت کو نگاہ میں رکھیں تو کشمیری عوام کیلئے یہ چیزانکے ممکنہ مستقبل کی ایک جھلک ہے۔

بھارت جنوبی ایشیاء میں ایک ابھرتی ہوئی قوت کے طور پر چائنہ کے مقابل آتا جارہا ہے۔ وقت میں تھوڑا پیچھے جائیں تو یہ معلوم ہوگا کہ اسرائیل اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے ہیں۔ بھارت نے اسرائیل سے تحریک کر لی ہے۔ وجہ ہے بھارت اسرائیل کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے اپنی بین الاقوامی لابنگ کو سفارتی محاذ، عالمی بڑی منڈی کی وسعیت کر کے معیثیت کے محاظ اور امریکہ کیلئے چائنہ کے خلاف جنوبی ایشیاء میں بڑا اتحاد بن کر ابھرا ہے۔ انٹرنیشنل ریلیشن میں عام تصور ہے کہ جب دو ریاستیں ذاتی مفادات کیلئے اتحاد میں آتی ہیں تو بین الاقوامی تصور میں بھی انہیں معاونت حاصل ہوتی ہے۔اس کی بڑی مثال یہی ہے کہ امریکہ اسرائیل کا اتحادی ہے اور گزشتہ دنوں غزہ پر ہونے والی دوسکیورٹی کونسل کی قراردادیں ویٹو کرچکا ہے جبکہ روس ویوکرین کے تنازع کے موقع پر دونوں فریقین پیش پیش ہوکر روس کی مخالفت کرنے میں موجود تھے۔

ان حالات کے تناظر میں یہ بات عیاں ہے کہ کشمیر ی عوام بالخصوص اور پاکستان دونوں کوآنے والے خطرے بھانپتے ہوئے تیاری کر لینا چائیے۔ یہ بس کچھ وقت کی بات ہے جب بھارت کشمیر کے غاصبانہ کو پوراآگے بڑھائے گا۔ دونوں فریقین پچہتر سالوں سے کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچے اور نہ کوئی ڈھنگ کی بات کرنے کو تیار ہیں۔خدا نخواستہ خدانخواستہ اگر بھارت اسرائیل کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے پیش قدمی کرنے لگا تو نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان کی سا لمیت پر بھی یہ زبردست دھچکا ہوگا جس کے اثرات نہ صرف دونوں فریقین تک رہیں گے بلکہ پورے جنوبی ایشیاء میں اثرات مرتب ہونگے۔ کارل سگین (Carlsogon)کے مطابق نیوکلیئر آرمڈ ریاستوں کے مابین جوہری ہتھیار اکثر ڈیٹرنسDeterance کی ناکامی اور حادثاتی استعمال کا باعث بن سکتا ہے۔ یا پھر نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال کو عام کر دیا گیا تو دنیا کا امن وامان تباہ ہوجائے گا۔بھارت اور پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو مفکرین کی رائے ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین جوہری ہتھیار کا خوف ہے جو انکو مکمل جنگ سے باز رکھتا ہے اور مکتبہ فکر کے مطابق یہ بس کچھ وقت کی بات ہے۔

دونوں ریاستوں کے مابین کشمیر ہی واحد ایسا تنازعہ ہے جو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو نہ صر ف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس تناظر میں یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ یہ سلسلہ یہیں تک نہیں رکے گا۔ جنوبی ایشیاء بہت سی ایسی دہشتگرد تنظیموں کا گڑھ بن چکا ہے۔ اگر یہ ہتھیار ان کے ہاتھ لگ گئے تو دنیا کا امن وامان پامال ہوجائے گا۔ اگر خدانخواستہ بھارت کشمیر پر قبضہ کر لیتا ہے تو پاکستان کی سا لمیت کو خطرہ دوچند ہوجائیگا کیونکہ اس عمل سے پاکستان میں جاری باقی آزادی کی تحریکیں جن کو بھارت کی حمایت حاصل ہے وہ شعلہ پکڑلیں گی۔ نتیجتاً ایک اور 1971کو ہونے سے بامشکل کوئی روک پائے۔مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ وقت عملی اقدامات کیلئے انتہائی مناسب ہے۔ اس سلسلہ میں مختلف مکتبہ فکر آزادکشمیر و پاکستان دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم میں شعور بیدار کریں۔

اس سلسلہ میں Local Think Tanks جیسا کہ CISSAJK کشمیر انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ سینٹر سمینار منعقد کروائیں۔ گس لیکچر کروانے جیسے ٹھوس اقدامات کریں۔ پاکستان کو اس وقت ضرورت ہے کہ موجودہ فارن آفس کو انٹرنیشنل لیول پر لابنگ کی ضرورت ہے۔وقت غیر یقینی ہوچکا ہے، اگر وقت سے پہلے یہ نہ کیا گیا توکشمیری عوام ابھی سے خود کو غزہ جیسے مقدر کیلئے تیارکرلیں۔خلاصہ کلام اس سلسلہ میں پاکستانی اور کشمیری مفکرین کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے اور مستقبل کو بھانپ کر اس کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں