پروفیسر راجہ محمد عثمان عارف 0

کشمیر کو تقسیم کرنے کی نئی سازش

تحریر: پروفیسر راجہ محمد عثمان عارف

کشمیر کو تقسیم کرنے کی نئی سازش

کشمیر بنے گا پاکستان۔ ہم کشمیری پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔ یہ تاریخ کی سچائی ہے کہ 1857ء کے سقوط دھلی کے بعد برصغیر پاک و ہند پر تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہو گئی۔ برصغیر کے وسائل معلوم کرنے کے بعد یورپی استعماری طاقتیں اس سرزمین پر قبضہ کرنے اور یہاں کے وسائل لوٹ کر اپنے ممالک میں لے جانے کی کوشش میں لگ گئے جس میں ولندیزی، فرانسیسی اور برطانوی آپس میں مقابلہ کرنے لگے۔
آخر کار برطانیہ کو کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ سارے تجارت کو نام دے رہے تھے جس کے ذریعے اپنا قدم یہاں جمانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ براطنیہ شاہی چارٹر کمپنی معروف برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے تقریباً ایک صدی کا سفر طے کرکے مغلوں کی حکومت کو ختم کرکے تاج برطانیہ کا جھنڈا JACKلہرا دیا جس کو (Union Jack)یونین جیک کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ برطانیوں نے یہ حکومت برصغیر کے مسلمانوں سے حاصل کی تھی۔ حکومت چھن جانے کے بعد برصغیر کے مسلمان ایک حریف کے طور پر دو بڑی قوتوں کے نشانے پر آگئے۔

ایک حکومت پر قابض برطانیہ کے انگریز اور دوسری قوت جوبرصغیر میں آبادی کے لحاظ سے اکثاریت میں تھی ہندو۔ یہ دونوں مسلمانوں کی دشمنی پر غیر مشروط متفق تھے۔ مسلمانوں نے اپنی بقاء کے لئے راستہ تلاش کرنا شروع کیا۔ مذہبی علماء نے دیوبند کو مرکز بنایا اور ان دونوں قوتوں کے مقابلہ کرنے کی کوشش شروع کی۔ اور سر سید احمد خان نے ایک جاندار تحریک علی گڑھ کے مقام سے شروع کی۔ اس دوران انگریز حکمران برصغیر میں قانونی اور دستوری اصلاحات کرتے رہے۔ باوجود جدوجہد کے انگریز حکمرانوں سے برصغیر میں مسلمانوں کے خلاف ایک سیاسی حمایت آل انڈیا نیشنل کانگرس قائم کردی۔

ایک انگریزی بیورو کریٹ مسٹر ہیوم اس کا بانی تھا تاکہ برطانوی طرز سیاست اور حکومت برصغیر میں اپنایا جائے۔ انتخابات کے ذریعے برصغیر کے حمایتی لوگوں /سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ اقتدار میں شامل کیا جائے تاکہ کاروبارِ حکومت چلانے میں آسانی ہو۔اقتدار پر قابض ہو جانے کے بعد برٹش انڈین حکومت نے دستوری اصلاحات کا 1861ء میں نفاذ کیا۔ 1909ء میں قدرے وسیع پیمانے پر اصلاحات کا ایک اور جامع پیکیج کے اجراء کا اعلان کیا گیا۔ اس سے قبل اصلاحات جاری ہونے سے برصغیر کے مسلمان ہر لحاظ سے فوائد سے محروم رکھے گئے جو مسلمان دانشوروں کے لئے تشویش کا باعث تھا۔ مسلمانوں کا ایک نمائندہ وفد شملہ کے مقام وائسرائے ہند لارڈ منٹو سے اپنے لئے آئندہ اصلاحات مفادات کو شامل کروانے کے لئے مطالبات کی شکل میں تجاویز دیں۔

وائسرائے نے ان کو پورا کرنے کا وعدہ کیا لیکن اس 30رکنی وفد کے قائدین نے مسلمانوں کی سیاسی جماعت کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا چنانچہ 30دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ شہر جس کا سقوط دھلی کے بعد 16دسمبر 1971ء کو تاریخ میں درج ہے۔ تین ہزار مندوبین میں جو مسلم ایجوکیشن کے اجلاس میں شریک تھے۔ الگ سے اجلاس کرکے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی۔ سلیم اللہ خان نواب آف ڈھاکہ نے نام تجویز کیا اور حکیم اجمل خان نے نام اور پارٹی تشکیل کی تائید کی۔ ڈھاکہ شہر ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خان کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کی دوبارہ سیاسی بحالی کی تاریخ میں امر ہوگئے۔

یہی حال انڈیا مسلم لیگ جو ڈھاکہ میں تشکیل پذیر ہوئی۔ 14اگست 1947ء کو علامہ اقبال کے دو قومی نظریہ اور قائد اعظم کی قیادت میں برصغیر میں مسلمانوں کی حیثیت کو 1856ء والی پوزیشن میں بحال تو نہ کرسکے البتہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے جہاں وہ اکثریت میں تھے ایک آزاد ملک کے طور پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مشرقی پاکستان کو توڑنے کے لئے بنیادی طور پر وہاں مسلم لیگ کو توڑا گیا اور تحریک پاکستان کے لئے سرگرم بنگالی مسلم قیادت کی بے توقیری کرتے ہوئے مسلم حکومت کے وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر جنرل کے مرکزی دفاتر میں ایک مختصر ٹولہ جو زیادہ تر برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق ملازمین پر مشتمل تھا نے مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کو ختم کرنے کے اقدامات کئے۔

تاریخ کا یہ ایک سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ریاست جموں و کشمیر کے موجودہ سیاسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو قائد کشمیر سردار عتیق صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا بیانیہ اور تجزیہ بڑا دانشمندانہ تھا اور تدبر کا آئینہ دار ہے۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس 15،16،17اکتوبر 1932کو ریاست کے سرینگر شہر میں واقع پتھر مسجد میں کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے قائم کی۔ آج اکانوے سال ہو گئے ہیں یہ جماعت جنوبی ایشیاء میں اپنے نظریات پر قائم اور دائم ہے۔ مودی اور بی جے پی نے غیر ہندوؤں کو ہندو بن جانے یا ہند چھوڑ دینے یا قتل ہوجانے کے آپشن دے رکھے ہیں۔

مسلم کانفرنس ریاست جموں و کشمیر کی وارث جماعت ہے۔ اس کے ممبران اسمبلی نے الحاق پاکستان کی قرارداد پاس کی۔ مسلم کانفرنس نے نیلا بٹ سے جہادِ آزادی کا آغاز کرکے پورے آزادکشمیر گلگت بلتستان کے کشمیریوں کو آزادی کا راستہ دکھایا۔ حکومت پاکستان نے مسلم کانفرنس سے ہی معاہدہ کراچی کیا تھا۔ جب 1970ء کے بعد اندرا عبداللہ اکارڈ ہوا۔ ادھر بھٹو صاحب نے یہاں مسلم کانفرنس کو توڑ کر غیر ریاستی جماعت پی پی پی کی حکومت قائم کی۔

ریاست جموں اور پاکستان کے تعلقات مسلم کانفرنس اور اس کی سیاسی قیادت بحال کر سکی ہے۔ بجلی بحران ہو یا آٹے کا بحران سیاسی قیادت کے بغیر نہ کوئی سیاسی تحریک چل سکتی ہے نہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے سیاستدان اور مقتدرہ آزادکشمیراور گلگت بلتستان کو مشرقی پاکستان نہ بنائے۔ مسلم کانفرنس کو پاکستان کے حکمران اور سیاسی پارٹیاں وہ درجہ دیں جو قائد اعظم نے دیا تھا ورنہ کشمیر بنگلہ دیش بن سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں