محمد جاوید ملک 0

تحریک آزادی کشمیر کے بانی ”قائد ملت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس“

تحریر:محمد جاوید ملک
ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر ، میرپور

تحریک آزادی کشمیر کے بانی ”قائد ملت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس“
04فروری1904کو جموں میں چوہدری نواب دین کے گھر پیدا ہونے والے چوہدری غلام عباس نے کشمیریوں کی سوئی ہوئی قسمت کو نہ صرف جگایا بلکہ جموں و کشمیر کی آزاد ی کے لیے مرتے دم تک کوششیں جاری رکھیں۔چوہدری غلام عبا س ایک متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے والد ماجدملازمت پیشہ تھے جھنوں نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ پر عرائض نویس کا پیشہ اختیا رکیا۔ چوہدری غلام عباس کا تعلق رانگڑ قبیلے سے تھاانہوں نے ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول جموں سے حاصل کی۔
1921 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پرنس آف ویلز کالج جموں میں داخلہ لے لیا۔1925میں انہوں نے گریجویشن کی اس کے بعد محکمہ قانون میں ملازمت اختیار کر لی لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد ملازمت چھوڑ کر ہائی سکول جموں میں بطور معلم بھرتی ہو گئے یہاں بھی طبیعت راس نہ آئی تو ملازمت چھوڑ کر 1929میں لاء کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔1931میں لاء کا امتحان پاس کر لیا۔چوہدری غلام عباس جس زمانہ میں پرنس آف ویلز کالج جموں میں زیر تعلیم تھے انہوں نے پہلے سے قائم ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کو اپنے چند دیگر ساتھیوں کی مدد سے از سر نو منظم کیا اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔1929کو وہ اس انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور جب صدر منتخب ہوئے تو انجمن نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور سماجی کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کی طرف متوجہ کرنے اور حقوق حاصل کرنے کے لئے راغب کیا۔اس دوران 1931میں جب جموں میں توہین مذہب کے واقعات پیش آئے تو ان واقعات میں ینگ مینز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے چوہدری غلام عباس اور ان کے ساتھیوں نے اہم کردار ادا کیا۔13 جولائی 1931 کو سنٹرل جیل میں عبدالقدیرکے مقدمہ کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کے مطالبہ اور بعث و تکرارمیں پولیس نے گولی چلا دی جس کے نتیجہ میں 22 افراد شہید ہوگے اسی شام مسلمانوں کے چھ لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا جن چوہدری غلام عباس،مستری یعقوب علی،سردار گوہر الرحمان،شیخ محمد عبداللہ،خواجہ غلام فصیعی اور مولوی عبدالرحیم شامل تھے،13 جولائی کے سانحہ اور اس کے نتیجہ میں کشمیری لیڈروں کی گرفتاریوں نے ریاست جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کو جنم دیاجو مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی آج تک جاری ہے۔تحریک آزادی کشمیر میں اب تک لاکھوں کے حساب سے کشمیریوں نے جان کے نذرانے پیش کیے ہیں اور اس کی تکمیل تک یہ جد وجہد اس وقت تک جاری رہے گئی جب تک مقبوضہ کشمیر بھارت کے چنگل سے مکمل آزاد نہیں ہوجاتا۔چوہدری غلام عباس کوقانون کے امتحان پاس ہونے کی اطلاع انہیں جیل میں ہی ملی۔ 1932میں ریاستی مسلمانوں نے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے سیاسی نمائندہ جماعت قائم کی تو چوہدری غلام عباس اس جماعت کے لئے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس نڈر،بہادر،درویش صفت سچے مسلمان تھے جھنوں نے ریاست کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایسے وقت میں جدوجہد کا آغازکیاجب لوگوں کے حقوق کی بات کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھی۔1934میں مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف سول نافرمانی کا فیصلہ ہوا تو آپ اس قافلہ کے سالار مقرر ہوئے.1935 میں چوہدری غلام عباس جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر اور شیخ عبداللہ نائب صدرمنتخب ہوئے۔اس انتخاب کے بعد چوہدری غلام عباس کا سرینگر میں دریائی جلوس تاریخی نوعیت کا حامل تھا۔1936 میں جب قائد اعظم سرینگر تشریف لائے تو آپ نے استقبالیہ میں سپاسنامہ پیش کیا تھااس دن کو وہ اپنی زندگی کا کابہترین دن کے طور پر جانتے تھے۔آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے سیاسی وسماجی خدمات کے آغاز سے مسلم کانفرنس ریاست کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن گئی 1934 ء اور 1938 ء ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مسلمانوں نے جو تاریخ ساز کامیابی حاصل کی وہ بھی آپ کی قائدانہ صلاحتوں کی بدولت تھی۔ڈوگرہ حکمرانو ں کے خلاف جرآت مندانہ قیادت کے نتیجہ میں ہی قوم نے انہیں ریئس الاحرار کا خطاب دیا۔1942جموں اور وادی سے تعلق رکھنے والے کچھ مخلص کارکنوں نے مسلم کانفرنس کا احیاء عمل میں لایا تو چوہدری غلام عباس اس جماعت کے صدر منتخب ہوئے۔1946میں نیشنل کانفرنس کی ”کشمیر چھوڑ دو” تحریک کے جواب میں مسلم کانفرنس نے ”آزاد کشمیر”کا منشور جاری کیا اکتوبر 1946کو ڈائریکٹ ایکشن کے نام سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو چوہدری غلام عباس اور ان کے بہت سے دوسرے ساتھی گرفتار کر لیے گئے۔ان راہنماؤں کو اس وقت رہائی ملی جب برصغیر تقسیم کے عمل سے گزر رہا تھا۔مارچ 1948کو چوہدری غلام عباس کو شیخ عبداللہ کی حکومت نے رہا کر کے سرچیت گڑھ کے راستے پاکستان بھیج دیا۔حکومت پاکستان نے انہیں مہاجرین کی آبادکاری کے معاملات کا نگران اعلی مقرر کیا۔اس کے علاوہ آپ کو تحریک آزادی کشمیر اور آزاد کشمیر حکومت کا سپریم ہیڈ بھی نامزدکیا گیا۔ رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس نے تحریک آزادی کشمیرکے لئے جبر واستبداد کی فضاوں میں کلمہ حق بلند کیا اور ریاست کے مسلمانوں میں اعتماد سازی اورجدوجہد آزادی کی بنیاد رکھنے میں وہ بنیادی کردار ادا کیا جس کے باعث پوری ریاست کے لوگوں نے آل جموں و کشمیرمسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے جمع ہوڈوگرہ سامراج کے خلاف نہ صرف ڈٹ کرمقابلہ کیا بلکہ تحریک آزادی کیلئے کشمیریوں نے اپنے خون سے ایسی لازوال قربانیاں دیں جو تاریخ کا سنہری باب ہیں۔چوہدری غلام عباس18 دسمبر1967کو میعدے کے سرطان کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہوگے آپ کے ورثاء میں 3 بیٹے دو بیٹیاں تھیں آپ کا مزار فیض آباد میں ہے آپ پاکستان سے بے حد محبت رکھتے تھے اسی وجہ سے حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں 1995 میں پاکستان پوسٹل نے آپ کی تصویر والایادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں