سردارمحمد پرویز خان 0

قائد ملت رئیس الحرار چوہدری غلام عباس خان

تحریر: سردارمحمد پرویز خان
ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر باغ

قائد ملت رئیس الحرار چوہدری غلام عباس خان

بانی کشمیر قائد ملت چوہدری غلام عباس مرحوم کی ولولہ انگیز کوشش اورتحریک آزادی کشمیر کے لیے ایک راہ متعین کرنے والے ہیرو کشمیری عوام کے لیے کسی بھی تعارف اورکسی قسم کی بے تحاشہ الفاظ پر مبنی کہانیوں پر مشتمل مضامین کے محتاج نہیں چونکہ انہوں نے کشمیری عوام کوایک وحدت ایک ملک کاخواب دے کر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خود عملی طور پرلازوال قربانیاں،تکالیف،مصبتیں قید تنہائی برداشت کر کے کشمیرکے اس خطہ کو ڈوگرہ راج سے آزادکروایا۔دنیامیں کوئی انسان بڑا یا عظیم نہیں ہوتا بلکہ اس کے اہداف بڑے ہوتے ہیں۔زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز پر وہ انسان جو دنیامیں بڑا چیلنج قبول کرتا ہے اورجتنے بڑے ہدف کے حصول کے لیے برسرپیکار رہتاہے اس کوچیلنچ سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کامقصد بنالیتا ہے وہ اتناہی عظیم انسان ہوتاہے۔جب کسی کی زندگی میں ایسا اہم ترین واقع وقوع پذیر ہوجائے تب اس کو عظیم یابڑا بنانے کے لیے کسی سند یاسرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں رہتی۔وہ بلاشبہ ایک حقیت کاروپ دھار لیتا ہے اپنے پرائے دوست دشمن چاہتے ہوئے بھی اس سے کسی قسم کاانکار نہیں کرسکتے۔قومی ہیروز دوطرح کے ہوتے ہیں ایک جو محض اتفاقیہ یا حادثاتی طورپر ہیرو بن جاتے ہیں اوردوسرے وہ جو اپنی زندگی صرف شعور اورتدبر کے ساتھ قومی یا انسانی فلاح کی کسی اہم کاز کے لیے وقف کردیتے ہیں اس اپنی زندگی کامقصد بنا لیتے ہیں جو قومی ہیرو ز منظر عام پر آتے ہیں ان سے بھی تاریخ بھری پڑی ہے اوران کے کارناموں سے بھی جواتفاقیہ طور پر سامنے آتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو قومی کی تباہی اور بربادی کا باعث بننے ہیں۔دوسرے جو صرف اللہ رب العزت کی طرف سے انمول تحفہ ہوتے ہیں جوقوموں کے لیے رہتی دنیا تک مینار نور ثابت ہوتے ہیں ان عظیم لوگوں کے کردار اورافکار جو مشعل راہ بنایا جائے یہ قومی ہیروز بڑے ہی عجیب قسم کے ہوتے ہیں ان کے قول وفعل اورکردارکاجائزہ لیاجائے تو یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ ان کے نزدیک ذاتی زندگی نام کا لفظ کوئی معنی نہیں رکھتایہ موت سے ڈرنے والے نہیں ہوتے اورنہ ہی کسی دنیاوی مشکلات سے گھبراتے ہیں انکی سوچ اوران کے افکار ایسی تمام چیزوں سے بہت دور اوربہت پرئے ہوتی ہے۔قائد ملت چوہدری غلام عباس میں ایسی تما م خوبیاں قدرت کی طرف سے ایک انمول دین تھیں۔آپ نے جموں میں نواب خان کے گھر میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم میٹرک کاامتحان جموں کے مقامی ہائی سکول مشن سے پاس کیااور1925میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔اس کے بعد ہی لاہور لا ء گریجویشن کالج میں لاء کے لیے داخلہ لیااور 31Aمین لاء کی ڈگری حاصل کی۔ابتدائی تعلیم کے زمانے سے ہی چوہدری غلام عباس نے اپنے ادر گرد کے ماحول اورسیاسی صورت حال کے پیش نظر انہوں نے اپنے دل میں ایک عزم اورارادہ کرلیاتھا کہ یہاں کی عوام کوبالخصوص مسلمانوں کو ایک الگ اورآزادانہ حیثیت میں رہناہوگا۔چونکہ دوقومیں ایک جگہ پر اپنے اپنے مذہب اوررسم رواج اوررہن سہن مشترک کسی صورت ممکن نہیں ہوسکتا۔چنانچہ انہوں نے اپنے آپ کو والنٹری ایک بڑے چیلنج کے لیے تیار کیا۔1924سے قبل یونیورسٹی میں داخلہ سے قبل ہی ایک سال پہلے ایسوسی ایشن آف ینگ مین کے صدر منتخب ہوئے۔اس زمانے میں سری نگر کے مقابلے میں جموں شہر میں زندگی کی زیادہ سہولیات میسر تھیں چونکہ اس شہرکو ڈوگرہ سماراج شاہی کی خصوصی سرپرستی حاصل تھی۔اوریہ تعلیمی لحاظ سے بھی جموں کے لوگ سری نگر کے لوگوں سے بہت آگے تھے اورسری نگر کے لوگ ظلم کی چکی میں پیس رہے تھے۔چوہدری غلام عباس نے جموں شہر کے بہترین تعلیمی ماحول سے فائدہ اٹھا کر علاقہ میں سیاسی ماحول پید ا کیا۔اورتحریک آزادی کشمیر کوایک بہترین راہ متعین کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوگئے تھے۔13جولائی 1931کے واقعات نے چوہدری غلام عباس کو ریاست کے دوسرے رہنماوں تبسم،محمد عبداللہ اوردیگر کے قریب لایا اورانہوں نے مل جل کر کشمیر کی آزادی کے لیے آگے چلنے اورآزادی کے لیے جدوجہد کرنے کے عہد کیا۔13جولائی کو ڈوگرہ پولیس نے سری نگر سنٹر جیل کے باہر گولی چلا کر 22افراد کوشہید اورکئی دیگر لوگوں کوزخمی کردیا تھا۔اس سانحہ کے بعد چوہدری غلام عباس کوسری نگر میں اور ہجوم سے گرفتار کرلیاگیا۔رہائی کے کچھ عرصہ بعد دوربارہ گرفتار ہوئے 1932میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کاقیام عمل میں لایاگیااورانہیں جماعت کاسیکرٹری جنرل اورشیخ محمد عبداللہ کوجماعت کاصدر چناگیا۔اس زمانے میں برطانیوی حکومت نے متحدہ ہندوستان کے کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار اوردیگر سیاسی حالات جانے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا۔چوہدری غلام عباس میں بے پناہ صلاحیتوں اورخوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اور1934میں جب یہ کمیشن مقرر ہوکر سیری نگر آیا تو شیخ محمد عبداللہ نے کمیشن اور ڈوگرہ حکومت سے مذاکرات کرنے کامکمل اختیار چوہدری غلام عباس کودے دیا کہ وہ مسلمانوں کے حقوق پربا اختیار ہوکر ڈوگرہ شاہی سے بات چیت کریں اورکمیشن جب سیری نگر آیا تو چوہدری غلام عباس نے اس کمیشن کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے مطالبات پیش کیے اورمسلم کانفرنس کی کوششوں سے چوہدری غلام عباس اورصدر مسلم کانفرنس شیخ عبداللہ کی قیادت کی وجہ سے اس وقت ایک نیشنل اسمبلی قائم ہوئی جس کے اندر مسلمانان کشمیر کو بہت کم نمائندگی دی گئی۔1935میں چوہدری غلام عباس آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوگئے اورانہوں نے ریاست بھرمیں دوردارزعلاقوں کا تفصیلی دورہ کرکے مسلمانوں کوتحریک آزادی کشمیرمیں شامل کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے جامع طور پر انہیں تیار کیا۔1944میں جب قائد اعظم محمد علی جناح سری نگر تشریف لے گئے توانہوں نے جامع مسجد میں کشمیری قوم کوایک جھنڈے کے تلے آگے ہوکر جمع اورمتحدہ
ہونے کی تلقین کی۔قائد اعظم محمد علی جناح کو خطہ کشمیر اورکشمیری عوام کے ساتھ گہر ادلی لگوا تھا۔اورپاکستان کے لیے کشمیرکی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے کشمیر کوپاکستان کی شہ رگ قراردیا۔ان کاجموں سے لے کر سری نگر تک والہانہ اورفقیدالمثال استقبال کیا۔اپنے اس دورہ کے دوران قائد اعظم محمد جناح نے مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے درمیان اختلافات کو ختم کروانے کی ہرممکن کوشش کیں۔مگر شیخ عبداللہ کی ہٹ درمی ان اختلافات کو ختم نہ کرواسکی۔آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کا13واں سالانہ اجلاس 17جون1944کوپارک سیری نگر میں منعقد ہوا۔قائد اعظم نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مسلمانان کشمیر کویہ یقین دلاتا ہوں کہ مسلم لیگ اور10کروڑ مسلمانان ہند آپ کی پشت پر ہیں جو آپ کا ہرطرح کاخیال اورساتھ دیں گے۔صرف اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ متحدہ اورمنظم ہوجائیں۔چوہدری غلام عباس صدرجماعت نے اس اجلاس کی صدارت کی اورصدارتی تقریرفرمائی۔ بعد میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اس تقریرپر چوہدری غلام عباس کومبارکباد دی اورکہاکہ یہ شاندار تقریرتھی۔یہ بات کسی بھی کشمیری لیڈر کے لیے انتہائی اعزاز اوراحترام کاباعث تھی۔29اکتوبر 1946کو چوہدری غلام عباس اوران کے ساتھیوں کوگرفتار کرلیاگیا۔اوراس کے بعد تقربیاً 17ماہ کی اسیری کے بعد 28فروری 1948کورہائی ملی۔اس وقت دنیا کے نقشہ پر ایک اسلامی مملکت خددار دار پاکستان کاقیام عمل میں آچکا تھا۔پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی کشمیر کے اندر پاکستان نواز رہنماوں اورقائدین پر ڈوگرہ رائج پر قیامت برپا کرکے رکھ دی۔اورکشمیر کے اندر پاکستان نواز عوام کو مالی اورجانی نقصان پہنچایا۔صوبہ جموں میں مسلمانوں کاقتل عام کیاگیا۔لاکھوں مسلمان بے گھر ہوکر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پرمجبور ہوئے۔جموں میں چوہدری غلام عباس کاگھر تباہ کردیاگیااوران کے خاندان پر بھی ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے۔1948میں چوہدری غلام عباس کی رہائی ہوئی تو وہ سیدھے پاکستان آئے۔پاکستان آنے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے انہیں گورنر ہاوس کراچی ملاقا ت کے لیے بلایا۔اپنے ہاوس کے باہر آکر ان کاگرم جوشی سے استقبال کیا۔اس کے بعد کشمیریوں کے لیے بے پناہ خدمات سرانجام دی۔آج کشمیر ی عوام پاکستان میں ہی مختلف علاقوں میں ان کی خصوصی کاوشوں سے باعزت طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔22دسمبر1962میں چوہدری غلام عباس پر بیماری کاحملہ ہوا تشخص پر پتاچلا کہ قائد ملت کو کینسر ہے۔جو اس موذی مرض میں تقریبا پانچ سال مبتلا رہے۔اور18دسمبر1967کو کشمیری قوم کایہ عظیم محسن 63سال کی عمر میں ہم سے جدا ہوکر خالق حقیقی سے جاملے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں