راجا شہزاد معظم 0

غازی ء ملت تجھے برسوں ڈھونڈے گا زمانہ

راجہ شہزاد معظم

غازی ء ملت تجھے برسوں ڈھونڈے گا زمانہ

قارئین محترم! شخصیات کا جنم لینا اور ایسی شخصیات جن کے دار فانی سے کوچ کے بعد بھی لوگ انہیں بھلا نہ پائیں اللہ کی خاص عنایت ہوا کرتی ہے۔ایسی یہ شخصیت کے مالک غازی ملت سردار ابراہیم خان تھے جو کہ اب سے پرواز کنے کے باوجود ازل تک زندہ و تابندہ رہیں گے۔اگر میں یہ لکھوں کہ غازی ملت کو کشمیر کا قائد اعظم کہا جا سکتا ہے تو اس میں بال برابر بھی ہرزہ سرائی نہ ہو گی۔ ان کا کردار،افعال اور سیاست رہنے وای کشمیری نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے۔اصولوں کے پکے اور سچے مسلمان تھے۔کبھی بھی کشمیری قوم کے مستقبل پر اس جری مرد نے کوئی سودہ بازی نہیں کی۔مرحوم کو ہم سے جدا ہوئے بیس برس کے لگ بھگ عرصہ بیت گیا ہے لیکن ان کی برجستگی اور شائستہ پن آج بھی انہیں عوام میں زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہے۔

غازی ملت تحریک آزادی کے بانی تھے اور آزاد کشمیر کے پہلے صدر ہونے کا اعزاز ان کے کھاتے میں جاتا ہے۔آپ راولاکوٹ کے ایک گاؤں میں سدھن قبیلے میں پیدا ہوئے۔مؤرخین کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۵۱۱۹ء ببمطابق عیسوی کلینڈر بتائی جاتی ہے۔اور ان کی اسناد میں بھی یہی تاریخ مندرج ہے۔آپ کے والد گرامی کا نام سردار میر عالم خان تھا۔ابتدائی تعلیم پرائمری سکول رہاڑہ سے حاصل کی اور پھر پونچھ شہر کی جان عازم سفر ہوئے۔وہان سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انٹر اور گریجویشن کے امتحا ن ا سلامیہ کالج لاہور سے پا س کئے۔

۸۳۹۱ء میں وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان کی جانب روانہ ہوئے۔وہاں سے انہوں نے قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی اور یوں پہلے کشمیری بیرسٹر ہونے کا اعزاز بھی اپنے کھاتے میں ڈالا۔وہاں سے واپس آ کر غازی ملت نے سری نگر ہائی کورٹ میں وکالت کا آغاز کیا۔

قرار داد الحاق پاکستان کے پاس کرونے میں بھی ان کا کردار نمایاں تھا۔۹۱ جولائی ۱۳۹۱ء کو ان کے گھر آبی گزر گاہ میں مسلم کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا۔ جسمیں سارے کشمیری زعماء نے شرکت کی۔ اور قرار داد پاکستان عبدالرحیم درانی نے پڑھی جس کو چوہدری غلام عباس کی قیادت میں سو فیصد اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ اس طرح پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد بھی غازی ملت کے گھر پاس ہوئی۔

پاکستان بننے کے بعد مئی ۷۴ء سے لے کر ۰۵۹۱ء تک وہ کشمیر کے صدارتی منصب پر فائز رہے۔دوسری مرتبہ وہ ۷۵۹۱ء سے ۹۵۹۱ء تک ریاستی صدر رہے۔انہوں نے صدارت کی ہیٹ ٹرک ۵۷ء سے ۸۷ء تک کی۔ ۷۴۹۱ء،۰۹۹۱ء،اور ۶۹۹۱ء میں وہ تین مرتبہ قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر کے ممبر منتخب ہوئے۔آزاد کشمیر سٹیٹ کونسل کے ممبر ۸۶۹۱ء میں بنے۔ یاد رہے سٹیٹ کونسل کا عہدہ ممبر قانون ساز اسمبلی کے برابر ہوتا تھا۔ اس طرح کل ملا کہ وہ چار مرتبہ پارلیمنٹ کے رکن رہے۔

انہوں نے اپنی الگ جماعت جے کے پی پی بھی بنائی جس کے موجودہ صدر سردار خالد ابراہیم ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مسلم کانفرنس،پیپلز پارٹیاور آزاد مسلم کانفرنس کے صدر بھی رہے۔یہ سب لکھنے کی حد تک تو آسان لگتا ہے لیکن ایک سیاسی ورکر کے لئے یہ بہت اعزاز کا کام ہے۔

کشمیری عوام کو ووٹ دینے کا حق انہی کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ یاد رہے پہلے کشمیری بحیثیت متنازعہ قوم ووٹ کا استعمال نہ کر سکتے تھے۔ غازی ملت نے عالم برادری اور امت مسلمہ کو قائل کیا کہ کشمیری ووٹ دینے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ان کاا سی کارنامے پر کشمیری قوم ساری عمر لگی رہے تو احسان مندی کی مرتکب نہیں ہو سکتی۔

یہی نہیں بلکہ ۹۴ء،۴۶،اور ۱۷ ء میں مسئلہ کشمیر کواقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر فلیش پوائینٹ بنائے رکھا جس سے بھارت کی سانسیں خشک ہوئی ہوئی تھی۔
۸۷ء میں آپ نے اپنی جماعت مسلم کانفرنس بھٹو صاحب کی درخوست پر پی پی میں ضم کر دی۔سردار ابراہیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائد ملت لیاقت علی خان سے لے کر جنرل جی معتوب الہیٰ جناب مشرف کے ساتھ کام کیا۔آپ ۷۴ء میں سری نگر سے آزاد کشمیر منتقل ہوئے اور بانی صدارت کا عہدہ سنبھالا۔ اس وقت دارالحکومت جنجال ہل تھا اس وقت آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری مشہور مصنف و ادیب قدرت اللہ شہاب تھے۔ بعد میں دارالحکومت انتظانی امور کے پیش نظر مظفرآباد منتقل کر دیا گیا۔

ایک دلچسپ اعزاز غازی ملت کے بارے میں تحریر کرتاچلوں کہ آپ ۲۳ سال کے کم عمر اور ۶۸ سال کے معمر ترین حکمران تھے۔ یہ ریکارڈ بھی شائد آنے والا کوئی کشمیرے عبور نہ کر سکے۔بڑھاپے میں بھی چست و چالاک رہتے تھے۔ بیڈ منٹن ان کا پسندیدہ کھیل تھا جو وہ زندگی آخری ایام تک کھیلتے رہے۔

ان کی دو کتب متاع زندگی اور کشمیر ساگا دنیا بھر کی لائیبریریوں کی زینت ہیں۔طنز و مزاح میں پطرس بخاری اور کرنل محمد خان کو بعض اوقات مات دے دیتے تھے۔ ایک نجی جلسہ میں انہوں نے کہا تھا کہ لوگو میں اللہ کی قسم جنت میں جاؤں گا۔ان کے اس فقرے سے محفل مسرت و شادمانی سے جھوم اٹھی تھی۔۱۳ جولائی ۳۰۰۲ء کو یہ عطیم لیڈر خالق حقیقی سے جا ملا۔ ضدا ان کو غریق رحمت کرے۔ ان کی نماز جنازہ صابر شہید سٹیڈیم میں ادا کی گئی جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے ااپنے محبوب قائد کو خراج عقیدت پیش کیا اور آخری رسومات ادا کی۔

ان کی خواہش کے مطابق ان کی نماز جنازہ عالم کامل مولانا یوسف صاحب شیخ الحدیث نے پڑھائی اور ان کے اعزاز میں حکومت نے سارے ملک میں سرکاری تعطیل کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی اعزاز مرنے کے بعد ملا کہ ان کی تصاویر کو ہر سرکاری دفتر میں آویزاں کرنے کا نوٹیفیکیشن کیا گیا۔

غازی ملت جسمانی طور پر ہم سے جدا ہو گئے لیکن بقول عظیم انگریزی ڈرامہ نگار شیکسپئیر ان کا کردار صدیوں تک کشمیری عوام کے لئے مشعل راہ رہے گا۔غازی ء ملت نے جس بہادری اور دیدہ دلیری سے کشمیری عوام کی نمائندگی کی اسے برسوں تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ خدا انہیں اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں