راجہ سعود احمد خان 0

غزہ اور بین الاقوامی قوانین

تحریر: راجہ سعود احمد خان

غزہ اور بین الاقوامی قوانین

اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے میں ہونے والی نسل کشی عام شہریوں اور املاک پر بمباری میں بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں غزہ میں ہونے والے حملے نے جس میں ہسپتال اسکول اور عام شہریوں کی رہائش گاہوں کو بہت نقصانات پہنچائے جسکی تلافی کسی بھی صورت نہیں کی جا سکتی۔اسرائیل نے بمباری کر کے پانج ہزار سے زائد بچوں سمیت عام شہریوں کا قتل کیا ہے۔
موجودہ وقت کے پیش نظر انسانی حقوق کے قوانین کو اسرائیل نے جوتے کے نیچے روندتے ہوئے انسانیت کا قتل کرتے ہوئے آگے نکل گیا ہے بین الاقوامی قوانین میں عام شہریوں پر حملہ کرنا اور عام شہریوں کے املاک پر حملہ کرتے ہوئے انکو جانی و مالی نقصان پہنچانا جرم ہے جو اسرائیل نے بار بار کیا ہے اسی طرح ہسپتالوں اور اسکول پر بھی حملہ کسی صورت نہیں کیا جا سکتا مگر اسرائیل نے تمام انسانی حقوق کے قوانین سمیت م جنگی قوانین کو مٹی میں روندتے ہوئے تمام قوانین کی خلاف ورزی کی جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر نمبر51 کے مطابق ہر ریاست کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔بین الاقوامی جنگی اصول ہیں ان میں اگر دیکھا جائے کچھ پہلو متنازعہ ہیں لیکن عالمی سطح پر اب بات پر اتفاق بھی کیا گیا ہے۔ ایک ریاست مسلح حملے کے خلاف اپنا دفاع کر سکتی ہے مگر اس بات کو قانونی نظر سے دیکھا جائے تو مسلح تصادم کے کے قوانین میں ایک قانون تفریق تناسب کا بھی ہے اس قانون میں یہ بلکل واضح ہے کسے بھی تنازعہ میں فریقین کر جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق کرنا چاہتا اصول میں عام شہریوں اور انکے املاک پر حملے پر پابندی رہتی ہے حملہ صرف تنازعے میں شریک جنگجوؤں اور فوجیوں کے مقاصد کے خلاف کیئے جا سکتے ہیں۔
اسرائیل نے تفریق تصادم کے قوانین کی بھی اسی طرح دھجیاں بکھیری جیسے بین الاقوامی قوانین کی بکھری ہیں۔ دیکھا جائے تو اسرائیلی نے بین الاقوامی قانون آرٹیکل (6) جس میں واضح لکھا گیا ہے کسے محصوص قومیت نسل مزہبی گروہ سے تعلق کو ہلاک کرنا یا جزوی طور پر تباہ کرنا یا نسل کشی کرنا کی خلاف ورزی کی ہے۔ تمام مسلم مرد و خواتین اور بچوں کا قتل کیا گیا نسل کشی کی گئی۔اس بین الااقوامی قانون کو نیوھبرگ مقدمیکے دوران استعمال کیا گیا اسرائیل سمیت 153 ممالک نے اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط چکے ہیں۔
اسرائیل نے آرٹیکل (8)کی خلاف ورزی کی جس میں جنگی جرائم انسانیت کے خلاف عام شہریوں پر تشدد اور جبری گمشدگی اور بے دخلی جیسے جرائم شامل ہیں۔بین الاقوامی عدالت کی سابق صدر جج زورلین ہیگنزنے ایک فیصلہ لکھا تھا دوران جنگ کسے جائز ہدف پر بھی حملہ نہیں کیا جا سکتا اگرچہ اس حملے کے نتیجے میں عام شہریوں کو ہونے والے نقصان محصوص ہو اور فوجی فوائد غیر تناسب ہو اس میں حملہ آور کی زمہ داری عائد ہوتی ہے اگر حملہ ہو چکا ہے تو دوبارہ حملے سے عام شہریوں کو نقصان کا خطرہ درپیش آ سکتا ہے تو وہ فوراً حملہ روکنے کے احکامات صادر فرمائے۔
غزہ میں بجے عورتیں اور عمر رسیدہ افراد جنگ بندی کی سدائیں لگاتے ہے مگر انکی کسی نے نہ سنی ہسپتالوں میں زیر علاج بچے ان ہسپتالوں پر بھی حملے گئے۔بین الاقوامی قوانین میں درج ہیں جس میں 1940 جینیوا کنونشن1899 اور 1907 ہیک کنونشن بھی شامل ہیں جسکی سرائیل نے سرعام خلاف ورزی کی بین الااقوامی قانون میں ایک قانون یہ بھی ہے دوران جنگ اگر ایک یونیفارم پرسن دوران جنگ ہتھیار ڈال دے اسے پروٹیکٹڈ کے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔غزہ میں بچوں اور عورتوں کی جنگ بندی کی سدائیں کسی نے نہ سنی تمام انسانی حقوق و قوانین اس وقت حرکت میں لائے جاتے ہیں جب صہونی اور یہود لائبی کے مفاد میں ہوں۔
ایک طرف مریکہ انسانی ہمدردی کے گیت گاتا ہے دوسری طرف اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں اسرائیل، فلسطین جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ ویٹو کرتا ہے۔
جیسا کہ ہالوکاسٹ، روانڈا،کمبوڈیا بوسنیا،عراق میں یزیدیوں اور میانمار میں روہنگیا کے خلاف کاروائیوں کو حالیہ تاریخ میں نسل کشی کی مثال قرار دیا جاتا ہے بلکل ویسے ہی اسرائیل کو بھی نسل کشی کی مثال کرار دِیا جائے گا۔انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں اسرائیل سزا کا حق رکھتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں