وفاقی وزیر خزانہ 0

مشکل فیصلوں کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ،لوگوں کو ٹیکس دینا ہو گا، وفاقی وزیر خزانہ

مشکل فیصلوں کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ،لوگوں کو ٹیکس دینا ہو گا، وفاقی وزیر خزانہ
ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے آئی ایم ایف پروگرام سے باہر نکلنا ہے، قومی اسمبلی میں اظہارخیال

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے ہم نے آئی ایم ایف پروگرام سے باہر نکلنا ہے جس کیلئے مشکل فیصلوں کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے، لوگوں کو ٹیکس دینا ہو گا، روڈ بیک ٹو مارکیٹ منصوبے، ٹیکسوں اور توانائی کے نظام میں بہتری، ایکسپورٹس میں اضافے اور ہر قسم کی لیکجز بند کر کے ملک کی معیشت کو بہتر کرینگے، ستمبر 2025 تک افراط زر کی شرح 5 سے 7 فیصد تک آ جائے گی جس سے پالیسی ریٹ کم ہو گا اور صنعتی نمو میں اضافہ ہو گا۔

منگل کو قومی اسمبلی میں آغا سید رفیع اللہ کی کم سے کم اجرت اور سید مصطفی شاہ کمال کی طرف سے ملک کی معاشی صورتحال کے حوالے سے پیش کردہ قراردادوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ کم سے کم اجرت 25 ہزار تھی جو پارلیمنٹ نے بڑھا کر 32 ہزار کی ہے، وزارت خزانہ نے اس کا نوٹیفکیشن اسی وقت کر دیا تھا، وزارت داخلہ، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے ذریعے اس پر عملدآمد کروا رہے ہیں، اس حوالے سے وفاقی دارالحکومت کی حد تک جہاں بھی کوتاہی ہوئی ہے وہ ہمارے علم میں لائی جائے، ہم اس کا ازالہ کرینگے۔اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اپنے معاملات میں خود مختار ہیں اس حوالے سے ہمیں صوبوں سے بھی بات کرنی پڑے گی، جہاں بھی ہو سکا ہم کردار ادا کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری شعبے کے ساتھ ساتھ کم سے کم اجرت کا اطلاق پرائیویٹ اداروں پر بھی ہوتا ہے۔ مصطفی کمال نے کہا کہ سود کے خاتمہ کے بغیر ہماری معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی، یہ طرز معیشت قرآن حکیم اور سنت کیخلاف اور اللہ سے جنگ ہے۔

علی محمد خان نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے سٹیٹ بینک کو ہدایت کی تھی کہ بینکنگ پرنسپلز اسلامی تعلیمات میں ڈھالے جائیں، ہمارے بینک اس حکم کیخلاف ہیں، قائد کا یہ کہنا تھا کہ یہ مغرب کا اقتصادی نظام ہے، جس نے انسانیت کیلئے مسائل پیدا کئے ہیں، یہ انصاف پر مبنی نظام نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سود اللہ سے جنگ ہے، اس ایوان کی سود کے خاتمہ کیلئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ شرعی عدالت نے اس حوالے سے فیصلہ کر دیا ہے اس پر مزید بحث کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ اس کیلئے پانچ سال کا وقت ہے جس میں شرعی عدالت کے فیصلے کے تحت سٹیٹ بینک نے تمام بینکنگ کو اسلامی نظام میں ڈھالنا ہے، کئی بینکوں کی برانچیں اسلامی بینکنگ میں تبدیل ہو چکی ہیں، حکومت اور سٹیٹ بینک اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت معاشی صورتحال بہت بہتر ہے، رواں سال کرنٹ اکائونٹ میں بہت بہتری آئی ہے اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی معیشت کے ساتھ جڑے ہیں، اس ہفتے تک 1.1 ارب ڈالر بھی آ جائیں گے، جون تک ہمارے پاس 2 ماہ کے درآمدی بل کیلئے 9 سے 10 ارب ڈالر موجود ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک ہفتہ واشنگٹن میں گزار کر آیا ہوں اس دوران میری ورلڈ بینک، اے ڈی بی، آئی ایم ایف، اے آئی بی، اے آئی ایف سی، سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور چین کے حکام کے ساتھ ملاقاتیں ہوئی ہیں، سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ سب چاہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری آئے، ملک کے اندر سے بھی سب کی خواہش ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام ہو۔

انہوں نے کہاکہ ہماری زرعی جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد ہے، زراعت اور آئی ٹی دو شعبے ایسے ہیں جن کا آئی ایم ایف یا قرضوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ سب کچھ ہم خود کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مثال دی کہ چاول کی حالیہ بمپر کراپ کی وجہ سے چاول ایکسپورٹ ہوا جس سے قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوا، اسی طرح آئی ٹی کے شعبہ کی ایکسپورٹ گزشتہ سال 2 ارب ڈالر رہی جس میں بہتری کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکلنا ہے جس کیلئے ہمارے پاس مشکل فیصلوں کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، لوگوں کو ٹیکس دینا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیکس اور توانائی کے شعبوں کو بہتر بنانا ہے، سرکاری شعبے کے 70 سے 80 ادارے ایسے ہیں جو نقصانات میں جا رہے ہیں، ہم نے ہر طرح کی لیکجز کو کم کرنا ہے اور ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہے، روڈ بیک ٹو مارکیٹ منصوبے اور دیگر اصلاحات کے ذریعے مستقبل میں آئی ایم ایف پروگرام سے باہر نکلنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال جون جولائی میں افراط زر کی شرح 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی جو اس وقت 20.07 فیصد ہے۔

ستمبر 2025 تک افراط زر کی شرح 5 سے 7 فیصد تک آ جائے گی جس سے پالیسی ریٹ میں بھی کمی آئے گی اور صنعتی شرح نمو میں بھی اضافہ ہو گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں