میر نور الدین اختر 0

بانی روزنامہ رہبر،انقلاب میر نور الدین اخترکو ہم سے بچھڑے 24سال بیت گئے لیکن صحافت اور تحریک آزادی کے لئے چھوڑی گئی مرحوم کی میراث ہمارے لئے مشعل راہ ہے

بانی روزنامہ رہبر،انقلاب میر نور الدین اخترکو ہم سے بچھڑے 24سال بیت گئے لیکن صحافت اور تحریک آزادی کے لئے چھوڑی گئی مرحوم کی میراث ہمارے لئے مشعل راہ ہے
روزنامہ رہبر اور ہفتہ روز انقلاب کے بانی میر نورالدین شاہ اختر کی آج 24ویں برسی انتہائی عقیدت اور احترام سے منائی جارہی ہے۔ مرحوم آج ہی کے دن 2000ء میں ہم سے بچھڑ گئے تھے، انا للہ و انا الیہ راجعون! مرحوم میر نورالدین شاہ اختر نہ صرف ایک کہنہ مشق صحافی، قلم کار، تجزیہ نگار اوربراڈ کاسٹر تھے بلکہ وہ ایک کشمیر ی مجاہد اور خاکسار تحریک کے اہم رکن بھی تھے۔ مرحوم نے اپنی ساری زمدگی مسئلہ کشمیر کو اپنے صحیح تناظر میں اجاگر کرنے کیلئے قلمی اور صوتی محاذ پر جہاد جاری رکھا۔ وہ قلم کے مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقی مجاہد بھی تھے۔ انہوں نے نہ صرف تحریک پاکستان میں حصہ لیا بلکہ تحریک آزادی کشمیر میں بھی باقاعدہ جہاد کیا۔ مرحوم 1940ء میں بھرپور جوانی کے ایام میں انگریز کی قید میں گئے اور پاکستان بننے کے بعد رہائی پائی۔وطن سے محبت کا یہ جذبہ ہی تھا کہ قید سے رہائی پانے کے فورا بعد عملی جہاد میں حصہ لینے کیلئے وادی میں داخل ہو گئے۔وادی میں ڈوگرہ حکومت نے ان کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے کے احکامات صادر کئے۔بعد ازاں مرحوم واپس آزاد کشمیر آگئے اور خود کو قلمی اور صوتی محاذ پر جہاد جاری رکھنے اور تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے وقف کردیا۔ میر نور الدین اختر آزاد کشمیر ریڈیو تراڑ کھل سے بھی وابستہ رہے۔نورالدین اختر مرحوم کی ریڈیو پاکستان اور ریڈیو آزاد کشمیر کیلئے بڑی خدمات ہیں، آزادکشمیر ریڈیو تراڑکھل کے پروگرام میرے وطن کے وہ نہ صرف تخلیق کار، میزبان بلکہ پروگرام کے رائٹر پیش کندہ بھی تھے۔ پروگرام میرے وطن اپنے وقت کا مقبول ترین پروگرام تھا، اس پروگرام کی باز گشت بھارت کے اعلی ایوانوں اور بھارتی پارلیمنٹ میں بھی سنی جاتی تھی، مرحوم میرنور دین المعروف میر صاحب اور ان کے دوست راجہ افتخار حسین خان المعروف اللہ لوک پروگرام کی جان تھے ان کا اسلوب بیان اس قدر پرکشش تھا کہ لوگ پروگرام کے شروع ہونے سے پہلے ہی رات 9بجے ریڈیو کے سامنے پروگرام شروع ہونے کے انتظار میں رہتے تھے۔ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اس پروگرام کی اہمیت اور افادیت کاملک و قوم کا ہر فرد معترف تھا۔ ریڈیو آزاد کشمیر کیلئے خدمات کے اعتراف میں انہیں 1990 میں صدارتی گولڈ میڈل کے علاوہ ان کی صحافتی اور صوتی محاذ پر خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے پہلے یوم تکبیر کے موقع پر 1999 میں گولڈ میڈل اور تعریفی سند سے بھی نوازا۔ مرحوم نورالدین اختر تحریک آزادی کشمیر کیلئے بھرپورجذبہ سے سرشار تھے، یہی وجہ ہے کہ زندگی کے آخری ایام تک مرحوم نے تحریک آزادی کو صحیح تناظر میں اجاگر کرنے کیلئے اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔ پچاس کی دہائی میں انہوں نے اپنے برادر اصغر عبدالحفیظ سالب (مرحوم) کے ساتھ ملکر ہفتہ روزہ ”آغاز“ جاری کیا جو ریاست میں وقت کا بہترین اور معروف جریدہ تھا۔
مرحوم نے بعد ازاں 1974میں ہفتہ روزہ انقلاب کا اجراء کیا جس کے ایڈیٹر مرحوم کے بڑئے بیٹے سید ریاض حسین شاہ بخاری مرحوم تھے۔1996میں مرحوم میر نور دین اختر نے1996میں ہفتہ روزہ ”رہبر“ کا اجراء کیا جو گزشتہ28بر سوں سے جاری و ساری اوراب گزشتہ 15سال سے روزنامہ کے طور رپر مظفرآباد اور اسلام آباد سے جاری ہورہا ہے۔ مرحوم میرنور الدین شاہ اپنی بڑی دختر سیدہ ساجدہ گیلانی کے جریدہ ماہنامہ گاش میں مشہور کالم ”پھول بھی انگارے بھی“ تحریر کرتے تھے۔ مرحوم میرنورالدین اختر کے معروف کالم ”اسے پڑھنا گناہ ہے“ گنہگار کے قلم سے، ”جام جم“ اور اپنی سیاسی جدوجہد اورجیل کی 8سالہ قیدوبندکی زندگی پر سلسلہ وار تحریر ”قفس کی تیلوں سے شاخ آشیاں تک“ انتہائی مشہور تھے۔مرحوم میر نور الدین شاہ اختر جنہیں خاکسار تحریک میں اپنی بہادری اور قربانیوں کے باعث بہادر غازی کا لقب دیا گیا تھا کو انگریز حکومت نے بغاوت اور انگریز فوجی افسر کے قتل کے الزام میں عمر قید اور پھر جزیرہ انڈومان جو کالے پانی کے نام سے مشہور ہے میں سزائے موت سنائی تھی لیکن مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے باعث پنجاب کی مختلف جیلوں میں قید بامشقت کی صعوبتیں برداشت کرنے کے 8سال بعد پنجاب منٹگمری موجودہ ساہیوال کی جیل سے رہائی پائی تھی۔ آج مرحوم کو ہم سے بچھڑے 24سال ہوگئے ہیں لیکن قلم کی میراث جو انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑی ہے ہماری کوشش ہوگی کہ ہم اس سے انصاف اور ان کے بتائے ہوئے اعلی صحافتی اصولوں کی پاسداری کرسکیں۔ مرحوم خاندانی طور پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سے وابستہ رہے اور نظریہ الحاق پاکستان کے ایک بڑے داعی اور مبلغ تھے۔ یاد رہے کہ مرحوم کے چچا قاضی عبدالغنی شاہ آف دلنہ کا شمار آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے بانیوں اور صف اول کی قیادت میں ہوتا تھا۔ مرحوم قاضی عبدالغنی شاہ سولہ سال تک ریاستی اسمبلی میں ضلع بارہمولہ کی نمائندگی کرتے رہے۔ پاکستان سے محبت اور نظریہ الحاق پاکستان مرحوم میر نوردین کو ورثہ میں ملا تھا ر وہ آخر دم تک اس نظریہ پر قائم و دائم رہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آمین!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں