ڈاکٹر جمیل احمد میر 0

نباتات ہے تو حیات ہے

تحریر: ڈاکٹر جمیل احمد میر

نباتات ہے تو حیات ہے

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں کوئی بھی چیز بے کار نہیں بنائی۔اس نے کائنات کے نظام کو ایسا کمال بخشا ہے کہ اس میں موجود اس کا ہر کل پرزہ خود کا رطریقے سے اپناکا م انجام دے رہا ہے۔اس نظام میں کارفرما مختلف عوامل کے درمیان ایک نازک سا توازن قائم ہے۔ کائنات کے حسن کے لئے اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمان،، ستارے اور دوسرے اجرام فلکی تخلیق کیے۔ زمین پرانسانی زندگی کی بقاء اور جلاء اور روئیدگی کے لئے حیوان، چرند، پرند، نباتات، جمادات، پانی اور ہوا پیدا کیے۔جب ہم کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو ہمارے لئے یہ کہے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ: ’اے ہمارے ربّ تو نے یہ (سب کچھ)بے فائدہ نہیں بنایا‘ (آل عمران ……۱۹۱)ہم اس کرّہ ارض پردستیاب ہر قسم کے وسائل سے استفادہ کرنے پر تو ہمہ وقت تیار، لیکن فطرت کے اصولوں کے اِدراک اور ان کی پابندی سے گریزاں رہتے ہیں۔ چناں چہ ہماری لاپرواہی ماحولیات پر نقصان دہ اثرات کا سبب بنتی ہے۔ہم درختوں کے پھولوں اور پھلوں سے فائدہ تو اٹھانا چاہتے ہیں، لیکن ان کی نگہداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم درختوں کو کاٹ کر بلکہ جنگلوں کا صفایا کر کے اپنی رہائش کے لئے محل تعمیر کرنا چاہتے ہیں، مگراس تخریبی عمل کے اثرات سے بے خبر،ان کٹے ہوئے درختوں کی جگہ اور درخت لگانے کی زخمت گوارا نہیں کرتے۔دنیا بھر میں بالعموم اور ریاست جموں و کشمیر میں بالخصوص پچھلی دو تین دھائیوں میں درختوں کو جتنی بے دردی کا کاٹا گیا، یہ ایک المناک داستان ہے۔ان کے اثرات آب و ہوا میں تبدیلی کی صورت میں اب ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ میں (برطانیہ میں) پچھلے پندرہ بیس سال کے دوران کام پر جانے اور واپس آنے کے لئے ہر ہفتے ہوائی سفر کرتا تھا۔ میں فضاء سے جب زمین کودیکھتا توحیران ہوتا تھا کہ قدرتی جنگل تو جا بجا تھے ہی، ان دانا لوگوں نے زرعی زمین پر بھی ہر سو ایکڑ زمین پر تقریباً بیس ایکڑ صرف درختوں کے لئے مخصوص کر رکھے تھے۔درختوں کے یہ جھنڈ ہر سو نظر آتے تھے۔ ان قطعات ارض پر فصل اگائی جا سکتی ہے نہ مکان تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔درختوں کے فوائد سے ہم لوگ بالکل نا آشنا ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جان داروں بشمول انسان میں نظام تنفّس، نباتات کے طریقہ تنفّس سے بالکل مختلف بنایا ہے۔انسان ہوا سے آکسیجن حاصل کرتا ہے اورکاربن ڈائی آکسائڈ جسم سے خارج کرتا ہے۔ جب کہ نباتات دن کی روشنی میں ہوا سے کاربن ڈائی آکسائڈ حاصل کرتی ہیں اور آکسیجن خارج کرتی ہیں،جسے ضیائی تألیف یا فوٹو سینتھی سیس (Photosynthesis) کہا جاتا ہے۔ ایک جوان درخت ایک سال میں ۳۱ پونڈ کاربن جذب کرتا ہے اور ۸۴پونڈ آکسیجن ہوا میں شامل کرتا ہے۔ درختوں کا ایک ایکڑ جھنڈ سال میں ۲ عشاریہ ۶ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا سے جذب کرسکتا ہے۔ درختوں کے پتے گرمی کو جذب کرتے ہیں اور ہوا کو صاف کرنے والی خصوصیات رکھتے ہیں۔درختوں کا لگانا، ان کی آبیاری کرنا اور ان کو پروان چڑھانا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے عَنْ أَنَسٍ بِنْ مَالِکِ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: ِإنْ قَامَتِ السَّاعَۃُ وَفِی یَدِ أَحَدِکُمْ فَسِیلَۃٌ، فِإنِِ اسْتَطَاعَ أَن لَّا تَقُومَ حَتَّیٰ یَغْرِسَہَا فَلْیَغْرِسْہَا.(انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا: اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تمہارے ہاتھ میں ایک پودے کی ٹہنی(قلم) ہو اور قیامت آنے سے پہلے اسے لگانا(اُگانا) ممکن ہو تو تمہیں چاہیے کہ اسے لگاؤ)(یہ حدیث بخاری کی کتاب الأدب المفرد سے مأخوذ ہے۔ اسے الالبانی نے صحیح کہا ہے -ڈاکٹر جمیل احمد میر) درخت لگانا،ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لئے ایک بہت ہی اہم مشن ہے۔ اس میں حصہ لے کر ہم اپنی زمین،جو موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ہزاروں سالوں سے، زمین درختوں کی بہتات کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ چلی آرہی تھی۔تیز رفتار زندگی، انسانی رویوں کی تبدیلیوں، نت نئی ایجادات، دھواں اگلتی فیکٹریوں، گاڑیوں اور مشینوں، گیس، پٹرول اور تیل کا روز افزوں استعمال اور جنگلوں کے صفایا نے،ماحول کی صفائی میں جُتے خود کار نظام کو غیر متوازن کر دیا ہے۔یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ درختوں کی بہتات کے طویل اور قلیل مدتی فوائد ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ درختوں کی جمالیاتی خوبصورتی فطرت کے حسین مناظر میں اضافہ کرتی ہے۔ درخت اور جنگل ہی متنوّع جنگلی حیات کی رہائش اور نشو و نما کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم، درخت صرف پھول پھل اور لکڑی کے حصول کاذریعہ ہی نہیں بنتے، وہ ہوا کی صفائی ستھرائی کا، بارشوں کی شدت(زور) کو کم کرکے سیلاب کے بچاؤ کا اور زمین بردگی کو روکنے کاسبب بنتے ہیں۔درخت سایہ فراہم کرتے ہیں اور گرمی کی شدت کو کم کرتے ہیں۔ درخت مختلف طریقوں سے ماحول پر اثر اندازہوتے ہیں:ہوا کو صاف کرنا۔درختوں کی بہتات یعنی جنگل ہوا کی صفائی کے ضامن ہوتے ہیں۔جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ دن کی روشنی میں ہوا سے کاربن ڈائی آکسائد اخذ کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں۔باغوں اور درختوں کے درمیان ٹہلنے سے انسانی دماغ تر و تازگی محسوس کرتا ہے۔ درخت بدبو اور دیگر نقصان دہ گیسوں جیسے امونیا، نائٹروجن آکسائیڈاور سلفر ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ ان کے پتے اور ان کی شاخوں اور تنوں کی چھال، ہوا سے دھول اور دوسرے ذرات کو بھی عمل تقطیر و تطہیر (فلٹریشن) سے گزارتی ہے۔توانا درختوں سے بھرا ایک ایکڑ ۸۱ افراد کو ایک سال تک آکسیجن فراہم کر سکتا ہے۔ گھروں کے ارد گرد لگے درخت، جو ہوا کو ٹھنڈا کرتے ہیں، گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر کی ضرورت سے ہمیں بے نیاز کر سکتے ہیں۔گرین ہاؤس گیس کے اثرات کو کم کرنا:کاربن ڈائی آکسائیڈ ‘کا روز افزوں اخراج،زمین سے اٹھنے والی حرارت کوفضاء میں تحلیل ہونے سے روکتا ہے۔ اسے گرین ہاؤس گیس’اثر کہا جاتا ہے۔ ہوا میں کاربن کی سطح بہت بلند ہونے سے زمین کا سیارہ گرم ہوتا جا رہا ہے، جسے گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔ جنگلات کا صفایا گلوبل وارمنگ کو بڑھاتا ہی چلا جا رہا ہے۔زمین بردگی یا کٹاؤ سے بچاؤ:بارش یا تیز ہوا نباتات سے محروم زمین یعنی خالی مٹی کو بہا یا اڑا لے جاتیں ہیں۔ تیز بارش اور آندھیاں زمین کے کٹاؤ کا باعث بنتی ہیں۔ درخت،بارش اور آندھیوں کے زور کو توڑ دیتے ہیں جس سے ان میں مٹی کو نقصان پہنچانے والی قوت زائل ہو جاتی ہے۔نباتات کی جڑیں زمین کی اوپری سطح کو جوڑ کر رکھتی ہیں جب کہ بڑے درختوں کی جڑیں زمین کی گہرائی میں جاکر زمین کو مضبوطی سے جکڑ لیتی ہیں۔ بارش یا طوفان کی وجہ زمین کے کٹاؤ یا زمین کے کھسک جانے (لینڈ سلائڈنگ) کو روکتی ہیں۔پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کو کم کرنے کے لئے ایسے درختوں کااگانا جن کی جڑیں بہت گہرائی تک جاتی ہوں انتہائی ضروری ہوتا ہیاوزون کی تہہ کی حفاظت:اوزون آکسیجن کی ہی ایک قسم ہے۔ آکسیجن میں دو ایٹم ہوتے ہیں جب کہ اوزون میں تین۔فضاء میں تقریباً ۲۲ میل اوپر اوزون کی ایک تہہ ہوتی ہے جو سورج کی کچھ ایسی شعاعوں (شعاؤں) جو انسانی جلد کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اوزون کی اوپر والی تہ کوکاربن کی زیادتی کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے، لیکن نچلی فضاء میں اوزان کا اضافہ ہو رہا ہے۔جو صحت کے لئے مضر ہے۔ درخت نہ صرف کاربن کو بلکہ نچلی فضاء کی اوزون کوبھی جذب کر کے ان کی مقدار کو کم کرتے ہیں، لہذا درختوں کو اگانے سے صحت پر ان کے مضر اور ماحولیاتی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔پانی کی آلودگی کو روکناطوفانی بارشوں سے پانی نالیوں گلیوں اور سڑکوں پر بہتا ہے او ہر قسم کی گندگی اور آلودگی کوساتھ لیے پھرتا ہے۔ پانی اگر زمین میں جذب ہو تو وہ تقطیر وتظہیر (Filteration & Purification) کے عمل سے گزر کر پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ نباتات اور درختوں کی بہتات پانی کو زمین میں جذب کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔بارش کا پانی تو ایک طرف،ہم نے قدرتی پانی کے ندی، نالوں اور دریاؤں کو انسانی فضلہ، فیکٹریوں کے کیمیائی فضلات، شہروں اور قصبوں کی گندگیوں سے آلودہ کر دیا ہے۔توانائی کا تحفظ:ہم نے درختوں کی بجائے شہروں اور قصبوں میں کنکریٹ کے جنگل کھڑے کر دیے ہیں۔ ہمارے گھروں کے درو دیوار اور چھتیں، ہماری سڑکیں اورہماری گلیاں، یہ سبھی حرارت کبہتریں کنڈکٹر (موصل)ہیں۔اس سے مقامی درجہ حرارت میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ہم ان کا درجہ ِ حرارت کم کرنے لئے مصنوعی توانائی سے چلنے والے پنکھے اور ایئر کنڈیشنراستعمال ہیں۔جب کہ درخت حرارت کو اپنے اندرجذب کرتے ہیں،یہ حرارت کے موصل نہیں ہیں۔ لہذا یہ درجہِ حرارت کو کم کرنے اور جگہ کو ٹھنڈا رکھنے میں مدددیتے ہیں۔پانی بچ کی بچت: درختوں کی وجہ سے ہوا میں نمی بڑھتی ہے، لہذا درخت بارش برسانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔بارش سے پانی کے استعمال میں کمی اور اس کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے۔پانی کی زیر زمیں تہ بھی اوپر آجاتی ہے۔جنگلی حیات کا ثبات: پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ درختوں میں بہت سے جانور اور پرندے بسیرا کرتے ہیں۔ ان سب کا ماحول کی تطہیر میں اہم کردار ہے۔معیشت اور معاشرت پر اثر:پودے اور درخت بہت سے لوگوں کی روزی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ پھولوں اور پھلوں کے باغات سے پھولوں اور پھلوں کا حصول، جنگلوں سے عمارتی،فرنیچر اور ایندھن کی لکڑی کا حصول، درختوں کی چھال اور ریشوں کا مختلف صنعتوں میں اور ان کے بہت سے مادوں کا ادویات میں استعمال وہ فوائد ہیں جو ہمیں بلا لاگت یا کم لاگت پر مل جاتے ہیں۔صحت افزا مقام:وہ علاقے جہاں درختوں کی بہتات ہو عام طور پر صحت افزا مقامات سمجھے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک بیماریوں سے افاقے بلکہ علاج کے لئے ایسے مقامات پر دارالصحت یا دارالشفاء (سینا ٹوریم) بنائے جاتے تھے، جہاں دائمی امراض میں مبتلاء ضعیف اور بہت ہی کمزور بیماروں کو رکھا جاتا تھا۔ درختوں کے جھنڈ یا جنگل خاموشی یا تنہائی کی علامت ہوتے ہیں۔ ان میں جانے سے ایک قلبی اور ذہنی سکون ملتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگ جو درختوں اور جنگلوں سے گھری آبادی میں رہتے ہیں،وہ پژمردگی (ڈیپریشن) اور دل کے عارضے میں کم مبتلاء ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی نظام کی حفاظت:الغرض درخت ماحولیاتی نظام کا توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ہمیں اپنے گھروں، قصبوں، شہروں اور پہاڑوں پر زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی بہت مشقت طلب کام بھی نہیں ہے۔یہ انسانوں،اور جانداروں بلکہ ہر قسم کے چرندوں اور پرندوں کی آسائش اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضاء کا سبب بھی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں