عبدالخالق چوہدری 0

”گندگی کے ڈھیر، غیر قانونی تعمیرات اور بے بس شہری“

تحریر: عبدالخالق چوہدری

”گندگی کے ڈھیر، غیر قانونی تعمیرات اور بے بس شہری“
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے126 کلومیٹر دور اورسطح سمندر سے459 میٹر بلندی پر آزادکشمیر کا سب سے بڑا اور جدید شہر میرپور قدیم تاریخ و تہذیب کے تاریخی پس منظر کے ساتھ منگلا جھیل کے کنارے دلکش اور پرفریب منظر پیش کرتا ہے۔ میرپور شہر جدید شہر ہے لیکن اس کے حقیقی مسائل کے حل اور شہریوں کے حقوق کا مقدور بھر خیال نہیں رکھا گیا۔ جس کی بڑی وجہ مقامی قیادت کی بے اعتنائی اداروں کی نااہلی و محکموں کی غفلت نے اس شہر کو بے یارو مدد گار چھوڑے رکھا اور اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھا۔ میرپور شہریوں کے بڑے مسائل میں سے متاثرین منگلا ڈیم کے مسائل میں سے ان کی آباد کاری کا مسئلہ، بجلی، پانی کے بلات کا مسئلہ، پلاٹوں اور زمینوں کی الاٹمنٹ کا مسئلہ جو ہمیشہ ”مرکزی بیوروکریسی کی ٹرخاؤ پالیسی“ کے زیر اثر رہا ہے۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت جو لوگ متاثر ہوئے تھے ان میں سے کئی خاندان مشکلات کا شکار ہیں انہیں پاکستان کے زمینداروں، جاگیرداروں کے مظالم، قبضہ مافیا اور صوبائی حکومت پنجاب کے امتیازی سلوک سے بچانا ہوگا۔ اسی طرح پلاٹوں کے مسائل اور ایم ڈی اے کے ظلم اور جبر کے استحصال سے بچانا ہوگا۔ بجلی کے ٹرانسفارمرز کی تبدیلی ونئی لائنوں کی تنصیب پینے کا صاف پانی کا مسئلہ سیوریج لائنوں کی از سر نوتعمیر، سکولوں اور کالجز کی کھنڈرات نما عمارات کی مرمتی، ہسپتال میں ادویات وفنڈز کی کمی شہرکی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر شہر میں ایک نئے جدید ہسپتال کی تعمیر، طلبہ و طالبات کیلئے ایک نئے کالج کااضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میرپور شہر میں سٹریٹ لائٹس کا نظام بحال کر کے شہر کو تاریکی سے اور چوروں سے بچانا ضروری ہے۔ شہر کی لنک رابطہ سڑکوں وگلیوں کی خستہ حالی پر توجہ کی ضرورت ہے۔ حکومت آزادکشمیر کو ان مسائل کے حل کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ تاکہ لوگوں کامعیار زندگی بلند ہو اور یہاں کے عوام کا احساس محرومی دور ہو سکے۔ میں بات کر رہا تھا کہ میرپور شہر کی جس کے باسی اربوں روپے ٹیکس اور اس سے زیادہ زکواۃ دیتے ہیں لیکن اس جدید دور میں بھی حکومت کی جانب سے مسلسل عدم توجہ کا شکار ہیں اور آزادکشمیر میں برسراقتدار ماضی کی حکومتوں کے تسلسل کو موجودہ حکومت نے بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ مقامی اداروں میں مخصوص صفات کے حامل آفیسران اور ملازمین تعینات کئے جاتے ہیں آج بات کی جائے گی آزادکشمیر کے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے میونسپل کارپوریشن میرپور کی جسے اکثر شہری سفید ہاتھی بھی کہا کرتے ہیں۔ کیونکہ ادارہ ماضی میں پلاٹوں کی منڈی کے حوالے ایم ڈی اے کی طرح کافی شہرت رکھتا ہے۔اس ادارے میں شعبہ اسٹیٹ اور شعبہ صحت وصفائی، شعبہ انسداد تجاوزات ایسے شعبے ہیں جن کے بعض آفیسران اور ملازمین مخصوص کرداروں کی وجہ سے شہری حلقوں میں موضوع بحث بھی رہا اور ان کی کرامات بھی سامنے آتی رہیں۔ اس ادارے اور ایم ڈی اے میں خاص شعبوں جن کا ذکر میں کر چکا ہوں۔ میں آفیسران کی تعیناتی وفاقی وزراء آزادکشمیر کے حکمرانوں کی سفارشوں اور مخصوص معاہدوں کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے۔ اور جو بڑوں کی امیدوں پر پورا نہیں اترتے۔ انہیں چند ماہ بعد ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے اس ادارے میں زیادہ دیر وہی رہ سکتا ہے جو لانے والوں کے ٹاسک بھی پورے کرے اور اس آڑ میں اپنا نان نفقہ بھی چلائے لیکن ان شعبوں کی جو ذمہ داری ہے وہ چاہے پوری ہو یا نہ ہو لانے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان شعبوں میں تعینات ہونے والوں کی میرپور میں جائیدادوں، گاڑیوں اور طرز زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے۔ بعض آفیسران جو بار بار اس ادارے میں مخصوص صفات کی وجہ سے دیگر اداروں سے آجاتے ہیں۔ان اداروں میں انہوں نے کیا کیا یہ تحقیقاتی اداروں کی نظر سے شاید اوجھل ہے لیکن اہل نظر اچھی طرح جانتے ہیں کہ شہر میں تمام سیکٹرز ہا میں 40 فیصد حصے پر غیر قانونی تعمیرات شعبہ اسٹیٹ اور انسداد تجاوزات کے مہربانوں کی کرشمہ سازیوں سے ہوئیں اگر یوں کہا جائے کہ یہ شعبے شہر میں غیر قانونی تعمیرات کے سرغنہ کا کردار ادا کر رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ان شعبوں کے بعض آفیسران اور اہل کاروں نے پلاٹوں کی خرید و فروخت میں بھی کافی شہرت حاصل کی ہے کسی کے محلات کسی کے پلازے ہیں اور کوئی ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ ان شعبوں کا عقل کل سمجھا جاتا ہے۔ ان شعبوں کے جن لوگوں کی کروڑوں روپے کی جائیدادیں ہیں۔ ان کا احتساب کون کرے گا۔ یہ تو نہ آج تک ہو سکا اور نہ ہی کوئی دور دور تک امکان نظر آتا ہے۔ کیونکہ نیچے سے اوپر تک سب فرینڈز ہیں۔ اس ادارے میں صحت وصفائی کا شعبہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن جن آفیسران کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے انہیں تبدیل کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ بڑوں کی خدمت نہیں کر سکتے ہیں گو کہ یہ ادارہ بڑی بڑی سفارشوں اور مبینہ نذرانوں کے ٹینڈروالوں کی آماجگاہ اور اس شعبے اور ادارے میں بار بار تعینات ہونے والوں کیلئے ماسی دا ویڑہ بن چکا ہے۔ شعبہ صحت و صفائی کے ملازمین کی ایک بڑی فوج موجود ہے جن میں سے اکثر وزراء، محکمہ بلدیات اور لوکل گورنمنٹ کے آفیسران، سابق بلدیاتی سربراہوں اور بااثر لوگوں کے گھروں پر جبری مشقت پر مامور ہیں۔ ان میں گھوسٹ ملازمین بھی ہیں۔ شہر کے کمرشل اور رہائشی علاقے گندگی کے باعث فلتھ ڈپو بن چکا ہے۔ شہری خوردبین لے کر اس شعبے کے آفیسران اور ذمہ داران کو ڈھنڈتے رہتے ہیں۔ رہائشی علاقوں میں ابلتے گٹروں نے شہریوں کا سانس لینا اور چلنا پھر نا محال کر دیا ہے۔ اس شعبے کے ذمہ دار صبح سے رات گئے تک بڑے بڑے ہوٹلوں میں ادارہ ترقیات اور بلدیہ کے بعض بااثر کلرکوں کے ساتھ بعض معاملات میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اور یہ ادارہ عملاً سفارشی آفیسران کے رحم و کرم پر ہے۔میرپور شہر کے شہری آزادکشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوارالحق اور وزیر بلدیاتی کی توجہ میرپور شہر میں صحت وصفائی کے مفلوج زدہ نظام اور ان اداروں کے آفیسران کی مجرمانہ غفلت اور شہریوں کے مسائل سے مسلسل چشم پوشی کی جانب مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس شہر کے شہری اور تاجراربوں روپے ٹیکس اور زکواۃ دیتے ہیں لیکن انہیں ایک صاف ستھرے شہر کی جگہ فلتھ ڈپو میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں