پاکستان-ایران 0

ایران کے ساتھ پاکستان کے مراسم اور تجارتی تعلقات پر امریکہ کا دھمکی آمیز رویہ بلیک میلنگ ہے جو کسی طور بھی قابل برداشت نہیں ہونی چایئے

ایران کے ساتھ پاکستان کے مراسم اور تجارتی تعلقات پر امریکہ کا دھمکی آمیز رویہ بلیک میلنگ ہے جو کسی طور بھی قابل برداشت نہیں ہونی چایئے

امریکہ نے ایک بار پھر ایران کے ساتھ نئے معاہدے کرنے اور تجارت بڑھانے پر خبر دار کرتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کا اشارہ دے دیا۔ واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایران کے ساتھ کاروباری معاہدوں کو بڑھاوا دینے والوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاک ایران نئے معاہدوں میں اگر پیش رفت ہوئی تو پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ ویدانت پٹیل نے کہا کہ معاہدے کے ذمہ داروں کو پابندیوں کے خطرے سے آگاہ رہنا چاہیے، پاکستان ایران کے ساتھ تعلقات اپنی خارجہ پالیسی کے تحت دیکھے۔چین اور بیلاروس کمپنیوں پر پابندیوں سے متعلق سوال پر نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے جواب دیتے ہوئے دعوی کیا کہ یہ ادارے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ترسیل کے ذرائع تھے۔ زیادہ تباہی والے جنگی ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور روک تھام کیلئے سپلائرز کو پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی سپلائی کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔گزشتہ روزبھی ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، امریکا ممکنہ پابندیوں کا جائزہ نہیں لے رہا۔ میتھیو ملر کا مزید کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈیوں اور اس کے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے، اپنی شراکت داری کو جاری رکھنے کے منتظر ہیں، پاکستان کی اقتصادی کامیابی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ ہماری رائے میں امریکہ کی طرف سے ایران کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات کے حوالے سے دھمکی آمیز رویہ کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں ہونا چایئے۔اس حوالے سے امریکہ کو پہلے بھارت کو بھی پابند کرنا چایئے کہ وہ ایران سے خام مال پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیاء سستے داموں حاصل نہ کرئئے اوراسی طرح بھارت کے لئے روس کے ساتھ بھی کاروباری اور تجارتی شراکت پر امریکہ کو کوئی مسئلہ نہیں۔چین اور بیلاروس کمپنیوں پر پابندیوں کے حوالے سے امریکی ترجمان خارجہ کا یہ کہنا کہ یہ ادارے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ترسیل کے ذرائع تھے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوفناک ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور خرید و فروخت کا صرف امریکہ کو ہی اختیار اور لائسنس حاصل ہے اور امریکہ جو خود دنیا میں بدامنی اور خوفناک ہتھیار پھیلا رہا ہے اس کا کیا۔بلاشبہ امریکہ کی طرف سے ایسے اقدامات صرف اور پاکستان کو بلیک میل کرنے اور خطے میں اپنی اجارہ داری جاری رکھنے کے بہانے ہیں کیونکہ اس وقت پاکستان کے معاشی حالات دگرگوں ہیں اور پاکستان مکمل طور پر آئی ایم ایف کے قرض میں جکڑا گیا ہے اور آئی ایم ایف سے رقم کی قسط اور آئندہ نیا پروگرام امریکہ کی خوشنودی اور منظوری کے بغیر ممکن نہیں لہذا امریکہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اور ایران کو دور رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ہماری رائے میں یہ صورتحال نہ صرف پاکستان، ایران بلکہ عالم اسلام کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہونی چایئے کہ امریکہ اسرائیل اور بھارت کو مفاد دینے اور اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے اورچین کو اس خطے سے دور کرنے کے لئے ایک بڑی سازش اور کھیل رچا رہا ہے۔ہماری دانست میں پاکستان کو اب امریکہ کے چنگل سے نکلنے کا فیصلہ کر لینا چایئے کیونکہ امریکہ کے ساتھ گزشتہ 70سال دوستی اور رفاقت میں پاکستان نے کیا کھویا اور کیا پایا سب اہل وطن ہمارے پالیسی سازوں اور حکمرانوں کے علم میں ہے، جبکہ امریکہ سے دور رہنے والے ملک،پاکستان اور دیگر امریکہ دوست ملکوں کی نسبت بہتر اقتصادی صورتحال میں ہیں۔بلاشبہ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو عالمی بنک، عالمی مالیاتی اداروں کے قرض، کرپشن اور امداد کے چکر میں جکڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ جب بھی پاکستان یا کوئی بھی امریکہ دوست ملک مشکل میں آیا امریکہ نے دھوکہ دیا۔آج وقت ہے کہ پاکستان اس ساری صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو امریکہ سے آزاد کرلے، اس کے لے ضروری ہوگا کہ امریکی پابندیوں اور مشکلات سے بچنے کے لئے روس، چین اور دیگر دوست ملکوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ بلاشبہ پاکستان فوری طور پر موجودہ حالات کے تناظر میں امریکہ کو نا کہنے کی سکت نہیں رکھتا لیکن اگر ایک بار پاکستان کی طرف سے حکمت عملی کے ساتھ ایک جاندار موقف اپنایا جائے تو امر یکہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ ہماری قومی بد قسمتی ہے کہ اس وقت ہماری معیشت مکمل طور پرعالمی مالیاتی ادارے کے رحم و کرم پر ہے اور امریکہ کی خواہش پر عالمی مالیاتی ادارہ آئے دن پاکستان پر کڑی شرائط اور ہدایات جاری کرتا ہے جس کے باعث پاکستان کی عوام انتہائی مشکل حالات سے دوچار اور مہنگائی کا شکار ہوگے ہیں۔ ہماری رائے میں ایسے قرض کا کیا فائدہ جس کے عوض ملک میں ہوشرباء مہنگائی، غربت ا ور بے روزگاری ڈیرے ڈال دے۔ بلاشبہ پاکستان اس قرض سے سابقہ قرض اور سود کی ادائیگی یقینی بناتا ہے لیکن معاشی طور پر ملک استحکام کی طرف نہیں جاتا۔ اگر امریکی امداد، قرض اور آئی ایم ایف کے قرض سے پاکستان کی معیشت بہتر ہوسکتی تو پاکستان آج امیر ملک ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قرض اور امداد نے پاکستان کو امریکہ کا محتاج اور دست نگر کرکے رکھ دیا ہے۔ آج وقت ہے کہ پاکستان خوف کا بت توڑ دے اور اس حصا رسے باہر نکل آئے اور اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر اپنے اور خطے کے مفاد میں چلائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وطن عزیز غربت، افلاس، بے روزگاری اور قرض کی وباء کے چنگل سے آزاد نہ ہوسکے۔ہمارے سامنے ایران کی مثال موجود ہے گزشتہ چار دہائیوں سے ایران امریکہ کی پابندیوں کا شکار ہونے کے باوجود معاشی طور پر پاکستان سے بہتر ہے۔ہماری دانست میں پاکستان کے لئے وقت آگیا ہے کہ قرض اور امداد کا کشکول توڑ دے اور امریکہ کی دھمکی اور خوف کا بت بھی توڑ دیا جائے تو پاکستان کی ترقی اورخوشحالی یقینی ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں